اخفاء الذکر

جس میں کتاب حکم الذکر بالجہر پر کیے گئے قابل قدر اعتراضات کے مسکت جوابات دیے گئے ہیں اور باحوالہ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ نمازوں کے بعد بلند آواز سے تکبیر کہنے کی بدعت ۲۱۶ھ میں خلیفہ مامون کے دور میں جاری ہوئی جو معتزلی اور رافضی تھا اور وہ حکومت کی سطح پر لوگوں کو بدعات پر مجبور کیا کرتا تھا۔ اور صلٰوۃ التسبیح کی روایات اور اس کے راویوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ ان کی بعض احادیث حسن بلکہ صحیح ہیں، اور یہ کہ امام ابن الجوزیؒ متشدد ہیں۔ نیز فریقِ مخالف کے بزرگوں اور خصوصًا ان کے اعلٰی حضرت کے صریح فتوے اور حوالے بھی اس میں درج کر دیے گئے ہیں جن کی رو سے ذکر بالجہر اور اذان سے قبل اور بعد درود شریف پڑھنے کا بدعت ہونا ثابت ہے، اور جب تلاوت اور ذکر بالجہر سے نمازیوں، سونے والوں اور مریضوں وغیرہم کو اذیت ہوتی ہو تو اس سے روکنا کہاں تک واجب ہے۔ ان کے علاوہ دیگر کئی اہم مسائل اور حوالے بھی اس میں درج کیے گئے ہیں۔ ان ارید الا الاصلاح ماستطعت وما توفیقی الا باللہ۔

فہرست: اخفاء الذکر

عرضِ حال

باب اوّل

حدیث ابن الزبیرؓ کی تحقیق: بصوتہٖ الاعلٰی کے الفاظ اس میں نہیں۔ آلوسیؒ، طحطاویؒ، تھانویؒ و عثمانیؒ

اس میں ابراہیم الفزاریؒ ہے نہ کہ الاسلمی۔ اسلمی ہو تب بھی ثقہ ہے

بصوتہٖ الاعلٰی ضعیف بھی ہو تب بھی فضائل اعمال میں معتبر ہے

اس کو منسوخ قرار دینا امام شافعیؒ کی محض ذاتی رائے ہے

الجواب

علامہ آلوسیؒ نے یہ مسلم کے حوالہ سے نقل نہیں کی

اور یہ بقول ان کے تعلیم پر محمول ہے

فتح الملہم میں یہ حدیث مشکٰوۃ کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے

علامہ طحطاویؒ نے مسلم کی طرف مراجعت نہیں کی

اس سے صرف علامہ ابن حزم الظاہریؒ وغیرہ نے استدلال کیا ہے

یہ روایت متعدد کتب حدیث میں ہے مگر کسی میں بصوتہٖ الاعلٰی نہیں

اس روایت میں ابراہیم بن محمد الاسلمی ہی ہے

اس پر متعدد اور ٹھوس حوالے

امام شافعیؒ کی محض رائے نہیں، اس کی بنیاد احادیث ہیں

کتاب الاُم کا حوالہ

دیگر ائمہ مجتہدینؒ کی معیت بھی ان کو حاصل ہے

ضعیف حدیث اگر موضوع نہ ہو تب وہ فضائل اعمال میں معتبر ہے

القول البدیع

حدیث موضوع کی تعریف۔ شرح نخبۃ الفکر و تدریب الراوی

صلٰوۃ التسبیح متعدد حضرات صحابہ کرامؓ سے مروی ہے اور صحیح ہے

امام ابن الجوزیؒ پر گرفت

بیس رکعت تراویح ضعیف حدیث سے ثابت نہیں بلکہ اسناد صحیح سے ثابت ہے

قرض کا وصیّت سے قبل ہونا

نمازوں کے بعد بلند آواز سے تکبیر کہنے کی بدعت رافضی اور معتزلی کی ایجاد ہے

البدایہ والنہایہ

مامون رافضی اور معتزلی تھا۔ البدایہ والنہایہ

باب دوم

الصلٰوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کا اثبات

وفاء الوفاء

ساون کا اندھا۔ کتاب الاذکار سے الصلٰوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کا اثبات

یہ مؤلف مذکور کی جہالت ہے

اس سے صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہے۔ نووی شرح مسلم

جلاء الافہام

الصلٰوۃ والسلام میں سے کسی ایک پر کسی موقع پر اقتصار مکروہ نہیں

القول البدیع

درود شریف آپؐ کو فرشتے پہنچاتے ہیں، آپؐ خود نہیں سنتے، جیسا کہ مؤلف مذکور وغیرہ کا باطل نظریہ ہے

ان کے دلائل

اور ان کے جوابات

کیا درود شریف پڑھنے والے کی آواز آپؐ خود سنتے ہیں؟

جلاء الافہام کی روایت

اور اس کا جواب

بوادر النوادر کی تفصیلی عبارت

بلغتنی صلٰوتہٗ کے الفاظ حدیث سے

حضرات صحابہ کرامؓ الصلٰوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ پڑھتے تھے

نسیم الریاض کی عبارت

اور اس کا جواب

باب سوم

بدعت کا شبہ

اس کا جواب

انوار الصوفیہ کا حوالہ

باب ہارم

ذکر بالجہر اور حضرت امام ابوحنیفہؒ

اس کا جواب

فتاوٰی قاضی خان کا حوالہ

کتابتِ فقہ اور دیگر کاموں میں مصروف لوگوں کے پاس جہرًا قرآن کریم پڑھنے والا گنہگار ہے۔ قاضی خان

مسند امام اعظم کا حوالہ اور اس کی تشریح

باب پنجم

حدیث خَیر الذکر الخَفِی پر اعتراض

اور اس کا جواب

باب شسشم

اثر عبد اللہؓ بن مسعود ضعیف ہے۔ علامہ آلوسیؒ

اس کا جواب

علامہ آلوسیؒ نے مسند دارمی کے اثر کو ضعیف نہیں کہا

یہ مؤلف مذکور کی جہالت ہے

علامہ آلوسیؒ نے واقعات کے اثر کو ضعیف کہا ہے، مگر ہے وہ بھی صحیح

باب ہفتم

اپنے گھر کی بے خبری

مفتی محمد حسین نعیمی کا فتوٰی

دارالعلوم حزب الاحناف لاہور کا فتوٰی

فتاوٰی رضویہ سے چند فتوے

دردمندانہ اپیل