فہرست: المسلک المنصور فی رد الکتاب المسطور
عرضِ حال
باب اول
کتاب شفاء الصدور بریلویہ کے رد میں لکھی گئی تھی
الجواب، یہ بالکل غلط ہے
یہ کتاب تو اہل السنۃ والجماعۃ، حضرات فقہاء کرامؒ اور اکابر علماء دیوبند کے خلاف لکھی گئی ہے
اس میں عام اموات کے سماع و عدم سماع کے اختلافی مسئلہ کی بلا تفصیل پرزور تردید کی گئی ہے
آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے عند القبر صلٰوۃ و سلام کے سماع کا مذاق اڑایا گیا ہے
حالانکہ یہ مسئلہ اتفاقی اور اجماعی ہے
فتاوٰی رشیدیہ امداد الفتاوٰی
ماہنامہ تعلیم القرآن
جناب نیلوی صاحب کہتے ہیں کہ سماع موتٰی ملحدوں کا اختراع ہے
حالانکہ سماع موتٰی کا مسئلہ احادیث کثیرہ صحیحہ سے ثابت ہے۔ فتح الملہم
اور سماع الموتٰی کی احادیث متواتر ہیں۔ فیض الباری
مطلقًا احادیث کا انکار تو منکرین حدیث بھی نہیں کر سکے
تواتر کا انکار کفر تک نوبت پہنچا دیتا ہے
مستفیض اور متواتر کا معنٰی حضرت شاہ ولی اللہؒ سے
توجیہ النظر، فیصلۂ مقدمۂ بہاولپور و فتح الملہم سے متواتر کی قسمیں اور اس کا حکم
جناب نیلوی صاحب نے استشفاع عند القبر کے مسلّمہ بین الفقہاء مسئلہ کو شرک قرار دیا ہے
امام سبکیؒ، سیوطیؒ، زرقانیؒ، یاضعیؒ، محب الدین طبریؒ، نوویؒ، قاضی عیاضؒ، ملا علی القاریؒ، ابن الہمامؒ، شامیؒ، بیہقیؒ، بحر العلومؒ، عبد الحق اشبیلیؒ، حافظ ابن القیمؒ، حافظ ابن کثیرؒ اور نانوتویؒ وغیرہ کے نام لے لے کر ان کی تردید کی ہے، کیا یہ سب بریلوی ہیں؟
حیرت و افسوس
اہل حق کو مشرک، مبتدع، ملحد، علماء سوء اور شریر کہنا کہاں کا انصاف ہے؟
بقول جناب نیلوی صاحب حیات الانبیاء اور سماع و استشفاع شریروں کے گھڑے ہوئے مسائل ہیں
یہ صحاح ستہ میں کیوں نہیں؟
جناب نیلوی صاحب نے صحاح ستہ کی حدیثیں کب تسلیم کی ہیں؟ چند حوالے
بقول نیلوی صاحب استشفاع عند القبر کا مسئلہ معتبر کتب میں باغیوں کا لکھا ہوا ہے
ان بعض کتابوں کے حوالے جن میں یہ مسئلہ ہے
بقول جناب نیلوی صاحب ان کتابوں میں یہ مسئلہ آنے والی نسلوں کو گمراہ کرنے کے لیے لکھا گیا ہے
المہند علٰی المفند اور حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحبؒ کی تصدیق کا رد، اور اس کا جواب
امام سیوطیؒ اور زرقانیؒ متساہل ہیں اور مولانا سید محمد انور شاہ صاحبؒ اور مولانا عثمانیؒ تو لکیر کے فقیر ہیں
کتاب شفاء الصدور میں اصل رد دیوبندیوں کا ہے
بریلویوں کا رد صرف برائے نام اور ضمنی ہے
انتہائی تعصب کہ تمام فقہاء کرامؒ خطا کار اور نسیان کا شکار ہیں
تذبیل
اہل بدعت یعنی بریلوی بھی سماع موتٰی کے قائل ہیں لہٰذا ان کا بھی رد ہو جائے گا
سماع موتٰی کے بارے میں جناب نیلوی صاحب اور جناب احمد رضا خان صاحب کا نظریہ ایک ہی ہے
حیرت
اہل حق کو ملحد اور مبتدع قرار دینے کے لیے دلائل
من دونہ اور من دون اللہ کے الفاظ پر مشتمل آیات سے عدمِ سماع موتٰی پر استدلال
مگر ان سے استدلال محض کشید اور سینہ زوری ہے
انک لا تسمع الموتٰی اور ما انت بمسمع من فی القبور سے استدلال
اس سے حضرت عائشہ صدیقہؓ نے استدلال کیا ہے مگر جمہور حضرات صحابہ کرامؓ نے ان سے اختلاف کیا ہے
فتح الباری کا حوالہ
عمدۃ الرعایۃ کا حوالہ
ان آیات میں عدم سماع کا اشارہ تک بھی نہیں۔ تفسیر حقانی
ان آیات سے یہ مسئلہ ثابت نہیں ہوتا
معارف القرآن
موتٰی سے جاہل مراد ہیں۔ امام راغبؒ
کسی صریح و صحیح حدیث میں سماع موتٰی کی نفی نہیں
سماع موتٰی کے مسئلہ پر سلف کا اجماع ہے، اور اس باب میں متواتر احادیث موجود ہیں
تفسیر ابن کثیر و کتاب الروح
اور عدمِ سماع موتٰی کے بارے میں صریح حدیث نہ ہونے کا جناب نیلوی صاحب کو بھی اقرار ہے
کتب فقہ میں باب الایمان کے ایک جزئیہ سے عدم سماع موتٰی پر استدلال درست نہیں
ورنہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ زندہ مشرک بھی نہیں سنتے
قرآن کریم سے استدلال
انما یستجیب الذین یسمعون والموتٰی (الآیۃ) سے عدم سماع پر استدلال
اس کا ترجمہ فوائد عثمانیہ سے
تفسیر جلالین کا حوالہ
کمالین کا حوالہ
اصولِ عربیت کے لحاظ سے مشبہ اور مشبہ بہ میں وجہ تشبیہ صرف ایک ہی ہوتی ہے
اور وہ عدم الانتفاع ہے
جلالین کا حوالہ
کیا حیات الانبیاء کا عقیدہ باطل فرقوں کا ہے؟
تفسیر بلغۃ الحیران کا حوالہ
باب دوم
جناب نیلوی صاحب کہتے ہیں کہ حیات الانبیاء کا عقیدہ منافقوں، رافضیوں، معتزلہ، جہمیہ، معطلہ، بریلیوں، قادیانیوں اور ہندوؤں کا ہے
اہلِ حق آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی وفات کے منکر نہیں ہیں
وفات کے بعد قبر میں حیات اہل السنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ کفایت المفتی
المہند کا حوالہ
نزاع صرف لفظی ہے
حضرت مولانا قاضی شمس الدین صاحبؒ کا راقم کو مباہلہ اور مناظرہ کا چیلنج
اور راقم کی طرف سے اس کا مفصل جواب
جناب قاضی صاحبؒ کا رجوع
حیات کے معنی؟
حیات برزخیہ کا انکار قطعیات کا انکار ہے
اور حیات عنصریہ پر قرآن و حدیث اور کسی فقیہ و امام اور صوفی سے کوئی دلیل ثابت نہیں
حیات کے مشہور معنٰی کے علاوہ گیارہ معانی اور ہیں
مفردات راغبؒ اور تفسیر مظہری کا حوالہ
الجواب
حیات عنصریہ کا ثبوت قرآن کریم سے ہے
اس پر قرآن کریم کی دو آیتیں
حدیث شریف
تسکین القلوب اور التعلیق الفصیح کا حوالہ
جناب نیلوی صاحب سے ثواب و عتاب قبر کے بارے جسم مثالی کے ثبوت کا مطالبہ
اجسامِ دنیویہ پر لطائف قاسمی کا حوالہ
نیل الاوطار کا حوالہ
تفسیر فتح القدیر کا حوالہ
امام راغبؒ کے حوالہ کی تشریح
حاشیۂ ترمذی کا حوالہ
تفسیر مظہری کا حوالہ
اور اس کا جواب
اولًا یہ کہ شہید کا جسم عنصری قتل کیا جاتا ہے (نہ کہ روح) اور زندہ بھی وہی ہوتا ہے
وثانیًا عدم شعور اجسام عنصریہ کا نہیں بلکہ زندوں کا شہداء کے بارے میں ہے
وثالثًا جناب نیلوی صاحب نے معنٰی غلط کیا ہے
ورابعًا جناب قاضی ثناء اللہ صاحبؒ حیات جسمانی کے قائل ہیں (تفسیر مظہری)
وخامسًا وہ روح کے جسد عنصری کے ساتھ تعلق سے حیات کے قائل ہیں (تفسیر مظہری)
مظہری کا اور حوالہ
وجہ اشتباہ و مغالطہ
چونکہ زندہ لوگ مُردوں کی حیات کا احساس نہیں کرتے لہٰذا وہ مُردے ہیں
تفسیر مظہری
بقول جناب نیلوی صاحب چونکہ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام کو غسل اور کفن دیا جاتا ہے لہٰذا وہ زندہ نہیں
اور شہداء کو غسل و کفن نہیں دیا جاتا اس لیے وہ زندہ ہیں
اس کا جواب
اولًا اس کا کیا معقول ثبوت ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام کو کپڑوں سمیت غسل دیا گیا؟
وثانیًا جو حضرات انبیاء کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام شہید ہوئے ان کو تو زندہ تسلیم کر لیں
وثالثًا صرف اس شہید کو غسل و کفن نہیں دیا جاتا جو معرکہ میں بلا فائدہ اٹھائے شہید ہو جائے
ہدایہ، شرح وقایہ اور مؤطا امام مالکؒ کا حوالہ
حضرت عمرؓ شہید تھے مگر غسل اور کفن دیا گیا۔ مؤطا امام مالک
شہداء اور بھی ہیں، اس پر متعدد حوالے
مگر ان سب کو غسل اور کفن دیا جاتا ہے
نرالی منطق کہ قبر میں عذاب و ثواب صرف روح کو ہے
اور خود جناب نیلوی صاحب سے اس کا رد
عجیب شوشہ کہ شہداء زندہ ہیں مگر انبیاء کرامؑ زندہ نہیں
حیاتِ برزخی کو مان کر اس پر حیاتِ دنیویہ کا اطلاق کرنے والے بھی اہل السنت والجماعت ہیں
اکابرین علماء جمعیۃ اشاعۃ التوحید والسنۃ
ماہنامہ تعلیم القرآن کا حوالہ
قبر کی زندگی حق ہے
الفقہ الاکبر
حضرات انبیاء کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام قبور میں زندہ ہیں
الکتاب المسطور، فتاوٰی دارالعلوم دیوبند
کفایت المفتی
خود اپنی تردید کہ میت (جسم عنصری) کو عذاب و ثواب کا ادراک و شعور ہوتا ہے۔ الکتاب المسطور
اور جمہور کے نزدیک یہ ادراک و شعور اعادۂ روح کی وجہ سے ہوتا ہے
اس پر متعدد حوالے
عجب الذنب دم گزہ بھی تو جسد عنصری کا حصہ ہے
سلامت اجساد انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام
امت مسلمہ میں مسلّم ہے (نیلوی)
حفاظ قرآن کے اجسام بھی محفوظ رہتے ہیں
جب ان کے اجساد سلامت ہیں تو ان کی ارواح طیبات کے ان کے ساتھ تعلق سے کیا چیز مانع ہے؟
ظلم عظیم
فتوٰی مفتیٔ اعظم ہندؒ
کفایت المفتی سے
الجواب، اس کی تشریح کفایت المفتی سے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عند القبر صلٰوۃ و سلام سنتے اور جواب دیتے ہیں
قبر مبارک میں آپؐ کی زندگی اہل السنت والجماعت کا مذہب ہے
جو شخص آپؐ کی روح طیبہ کا جسم مبارک سے تعلق نہیں مانتا وہ توہین کا مرتکب ہے
مطالبہ
حضرت فقہاء کرامؒ اور اکابر علماء ملت سے صراحۃً باحوالہ یہ ثابت کریں کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روح مبارک کا جسد اطہر سے قبر شریف میں کوئی تعلق نہیں اور آپؐ عند القبر صلٰوۃ و سلام نہیں سنتے
اجساد مثالیہ کا ثبوت
عمدۃ القاری، شرح الصدور، روح المعانی
الجواب
نیلوی صاحب کا معصومانہ انداز
قرآن کریم، احادیث متواترہ، حضرات فقہاء و متکلمین کو چھوڑ کر قبر کے ثواب و عتاب کے لیے غیر متعلق اور غیر معصوم اقوال سے اجساد مثالیہ کا اثبات کرتے ہیں
حالانکہ یہ اجساد مثالیہ قبر سے باہر کے لیے ان کی سواریاں ہیں نہ کہ تدبیر ابدان کے لیے
اور خود جناب نیلوی صاحب ’’فی جوف‘‘ کا معنٰی ’’علٰی جوف‘‘ نقل کرتے ہیں
جناب نیلوی صاحب کی بوکھلاہٹ
تسکین الصدور اور سماع الموتٰی وغیرہ میں تعارض و تضاد کا دعوٰی
اور بعض راویوں کے بارے میں بعض جرحی کلمات ترک کرنے کا الزام، اور محمد ابن اسحاقؒ اور قتادہؒ کی روایت کے بارے میں تنقید
جناب نیلوی صاحب کا مفروض تعارض اور اس کا جواب
اس سلسلہ میں حضرت مولانا مفتی محمد نعیم اللہ صاحب کے سوالات
اور راقم اثیم کے اختصارًا جوابات