فہرست: درود شریف پڑھنے کا شرعی طریقہ
پیش لفظ
آخر زمانہ میں جھوٹی حدیثیں اور باتیں بکثرت ہوں گی، ان سے بچو
ہر سال لوگ نئی بدعت گھڑتے رہیں گے
بدعت کو سنت کا درجہ دے دیا جائے گا
آخر زمانہ میں جاہل عابد اور فاسق قاری پیدا ہوں گے
بدعتی محض اپنی ساکھ کے لیے بدعت گھڑیں گے
بدعتی پر توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے
بدعتی شفاعت سے محروم ہوتا ہے
اگر نمازوں کے بعد بلند آواز سے دعا کرنا عبادت ہوتی تو سب سے پہلے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرتے
بکثرت اللہ تعالٰی کا ذکر کرنا کامیابی کا ضامن ہے
لڑائی کے موقع پر آواز بلند کرنا پسندیدہ نہیں ہے
قیامت کے دن ان لوگوں کا درجہ بلند ہو گا جو بکثرت ذکر کرتے ہیں
دعا سے پیاری چیز اللہ تعالٰی کے ہاں اور کوئی نہیں
درود شریف کی بڑی فضیلت آئی ہے
ذکر کا طریقہ کہ وہ آہستہ مطلوبہ ہے۔ قرآن کریم اور حدیث شریف
ائمہ اربعہؒ کا اتفاق ہے کہ ذکر آہستہ ہونا چاہیے
ہاں تعلیم کی خاطر آواز بلند کرنا جدا بات ہے
امام ابوحنیفہؒ بلند آواز سے ذکر کو بدعت کہتے ہیں
ان کا استدلال قرآن کریم سے ہے، کبیری و مظہری
قیامت کی نشانیوں میں سے ہے مسجدوں میں آواز بلند کرنا
حالانکہ بعض علماء نے ذکر کو بھی مسجد میں بآواز بلند حرام کہا ہے
حضرات صحابہ کرامؓ کا یہ طریقہ نہ تھا
دعا بھی آہستہ ہونی چاہیے، فتاوٰی سراجیہ وغیرہ
درود شریف جہر سے پڑھنا بدعت ہے، حضرت ابن مسعودؓ
اذان کے بعد بلند آواز سے درود شریف پڑھنے کی بدعت ۷۹۱ھ میں مصر میں جاری ہوئی
ایک جاہل صوفی اور ظالم حاکم کی وجہ سے یہ رائج ہوئی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدینؓ کے زمانہ میں یہ نہ تھی، امام شعرانیؒ
سلطان صلاح الدینؒ نے رافضیوں کی بدعت کو قانونًا ختم کر کے اس کو جاری کیا
لیکن حدیث میں خلفاء راشدینؓ کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم آیا ہے نہ کہ سلطان عادل کی
اس کے بدعت ہونے پر امام ابن حجر مکیؒ کا حوالہ
یہ کارروائی بلا دلیل ہے اور اس سے منع کرنا چاہیے
شریعت کے مطلق احکام میں قید لگانا درست نہیں
ذکر آہستہ بہتر ہے، حدیث شریف
امام سخاویؒ نے اذان سے قبل و بعد بلند آواز سے درود شریف پڑھنے پر اختلاف علماء ذکر کیا ہے
امام سخاویؒ وغیرہ کا اس کو بدعت حسنہ کہنا بلا دلیل ہے
اہل السنۃ والجماعۃ کی تعریف حافظ ابن کثیرؒ سے
فرقہ ناجیہ کون ہے؟ حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ سے
فرقہ غیر ناجیہ کون ہے؟ حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ سے