اتمام البرہان فی رد توضیح البیان (۴)

علمائے کرام نے قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں متعدد تراجم امت مسلمہ کی سہولت کے لیے کیے ہیں، اردو زبان میں بھی کئی تراجم ہیں اور متعدد تراجم میں شعوری یا غیر شعوری طور پر اغلاط بھی موجود ہیں، لیکن بریلوی حضرات کے اعلٰی حضرت نے قرآن کریم کے لفظی ترجمہ میں جو اپنے من مانے اور باطل عقائد داخل کیے ہیں، اور ان کے لائق شاگرد مراد آبادی صاحب نے اپنی تفسیر میں ان تراجم کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا جو زور صرف کیا ہے، کسی زبان میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ ہم نے فرض کفایہ ادا کرتے ہوئے بعض بزرگوں کے حکم اور مشورہ سے ’’تنقید متین بر تفسیر نعیم الدین‘‘ میں خالص علمی انداز میں ان غلط تراجم اور ان کی خود ساختہ تفاسیر پر گرفت کی تھی، جس پر ان کی جماعت کے ایک نام نہاد محقق اور مدقق صاحب کی باسی کڑی میں اُبال آگیا اور ’’توضیح البیان‘‘ کے نام سے رطب و یابس اکٹھا کر کے ایک ضخیم کتاب لکھ ماری۔ اس توضیح البیان کا خالص علمی انداز سے رد اِس زیر نظر کتاب ’’اتمام البرھان‘‘ میں کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ ان شاء اللہ العزیز جویانِ حق کو اس میں خاصا علمی مواد ملے گا اور ٹھوس حوالوں کو پڑھ کر وہ بڑے مطمئن ہوں گے، اس کو پڑھ کر کچھ چہرے ضرور اداس بھی ہوں گے مگر یہ ایک فطری بات ہے جو ہمارے بس کی نہیں ہے۔ واللہ یقول الحق وھو یھدی السبیل۔

فہرست: اتمام البرہان فی رد توضیح البیان (۴)

عرضِ حال

قرآن کریم کی حفاظت اور اس کی فہم

فریق مخالف کے اعلٰی حضرت کے ہاں سب سے بڑی عبادت دیوبندیوں کی اہانت ہے

اسلامی ممالک میں خانصاحب کے ترجمہ اور ان کے شاگرد کی تفسیر پر پابندی

بحث حاضر و ناظر

خانصاحب اور ان کی روحانی ذرّیت کا نظریہ

شاہد اور شہید سے حاضر و ناظر پر استدلال

تفسیر روح البیان کا حوالہ

تفسیر بیضاوی، مدارک، اور ابوالسعود کا حوالہ

حاضر و ناظر کے عقیدہ سے عظمتِ رسول ظاہر ہوتی ہے

تفسیر عزیزی کا حوالہ

روح البیان کی ایک عبارت

آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فضائل کو (معاذ اللہ تعالٰی) مشقِ ستم بنانے کی چند مثالیں

علمِ رسالت پر طعن منافقین کا طریقہ ہے

تفسیر خازن سے ایک حدیث کا حوالہ

ماکان اللہ لیذر المؤمنین (الآیۃ) کا شانِ نزول

سابق حدیث سے حاصل فوائد

آپ کو علمِ غیب تدریجًا حاصل ہوتا رہا

الجواب

حاضر و ناظر کے بارے میں فریق ثانی کے متضاد نظریات ہیں۔ چند حوالے

حاظر و ناظر کی مفصل بحث تبرید النواظر اور تفریح الخواطر میں ملاحظہ فرمائیں

آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو حاضر و ناظر تسلیم کرنا کفر ہے

شاہد کے لیے حاضر و ناظر ہونا شرط نہیں

کتب فقہ میں الشہادۃ بالتسامع کا باقاعدہ عنوان موجود ہے

آیت مذکورہ میں شہادت سے دنیوی شہادت مراد نہیں بلکہ قیامت میں تزکیہ مراد ہے

بخاری شریف، ترمذی شریف، اور ابن کثیر کا حوالہ

روح البیان، بیضاوی، مدارک، اور ابوالسعود کے حوالے مؤلف مذکور کو مفید نہیں

مدارک، ابوالسعود اور روح المعانی کا حوالہ

کان الرّقیب سے قبل بیضاوی کی عبارت

فاضل سیالکوٹیؒ کا حوالہ

دنیا میں ساری امت کے تمام ظاہری اور باطنی اعمال کا علم آپؐ کے لیے ثابت کرنا نصوص قطعیہ اور احادیث صحیحہ کے خلاف ہے

تفسیر عزیزی کی مجمل عبارت کا مطلب خود تفسیر عزیزی اور فتاوٰی عزیزی کی مفصل عبارات سے

روح البیان کے مؤلف محقق نہیں

بحوالۂ اکسیر

آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ثابت شدہ فضائل کا کوئی مسلمان منکر نہیں ہے

جو شخص نصوص قطعیہ اور احادیث صحیحہ کا رد کرتا ہے وہ پرلے درجے کا بے ایمان ہے

سدّی کذاب و وضاع ہے

پھر اس کی سند بھی ثابت نہیں۔ بحوالہ تفسیر مظہری

ضعیف الایمان لوگوں کا یہ نظریہ تھا کہ نبی تمام غیوب پر مطلع ہوتے ہیں۔ قسطلانیؒ

آپؐ کی ناراضگی آپؐ کے علم میں طعن کی وجہ سے نہ تھی بلکہ دوراَزکار سوالات کی وجہ سے تھی

بخاری و مسلم

اور حضرت حذیفہؓ وغیرہ کو جواب دینا وحی کی وجہ سے تھا۔ نووی شرح مسلم

الغرض آپؐ کے لیے علم غیب کی صفت ثابت کرنا منافقوں کا کام ہے نہ کہ اس کی نفی

مؤلف مذکور کا معصومانہ انداز

سدّی دو ہیں، دونوں کذاب ہیں (تہذیب التہذیب)

توجہ ہٹنے کا شوشہ

اس کا بخاری کی صحیح حدیث سے رد

انتہائی نکمی بات

سورہ توبہ آخری سورتوں میں سے ہے۔ بخاری و مستدرک

حضرت عائشہؓ پر بہتان والے واقعہ کے جواب سے مؤلف مذکور کی عاجزی اور واویلا

حاضر و ناظر کا ثبوت

آپؐ کا جسم اقدس روضۂ منورہ میں ہے، تمام کائنات آپؐ کے سامنے ہے

حیات

لطائف قاسمیہ کا حوالہ

لطیفہ، مولوی سرفراز صاحب نے حیات انبیاء کی نفی کی ہے اور قاسم نانوتویؒ نے موت کی نفی کی ہے

الجواب، ہمارے دلائل ازالۃ الریب اور تبرید النواظر میں درج ہیں

تمام کائنات کے آپؐ کے سامنے موجود ہونے کی کون سی قطعی دلیل آپ کے پاس موجود ہے؟

عرضِ اعمال صرف اجمالی ہے نہ کہ تفصیلی

حدیث انک لا تدری ما احد ثوا بعدک اس کی واضح دلیل ہے

حضرات فقہاء کرامؒ لکھتے ہیں من قال ارواح المشائخ حاضرۃ تعلم یکفر

بزازیہ البحر الرائق

متعدد مقامات پر جو رؤیت ہوتی ہے وہ جسد مثالی سے ہوتی ہے

الیواقیت والجواہر

فتح الملہم کا حوالہ

اسنٰی المطالب کا حوالہ

حضرت تھانویؒ کا حوالہ

مدارج النبوۃ کا حوالہ

امام شعرانیؒ کا حوالہ

صور مثالیہ اور ان کے متعدد ہونے سے مسئلہ علمِ غیب اور حاضر و ناظر ہونے کا قطعًا کوئی تعلق نہیں

مکتوباتِ حضرت مجدد صاحبؒ کا حوالہ

فریقِ مخالف کے اعلٰی حضرت کے ہاں حاضر و ناظر ہونا جسم کی صفت ہے۔ ملفوظات حصہ اول کا حوالہ

تنویر الخواطر کا حوالہ

تسکین الصدور اور سماع الموتٰی جیسی کتابوں کی موجودگی میں ہم پر حیات انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کی نفی کا الزام سراسر بہتان ہے

آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے علمِ غیب اور حاضر و ناظر کی صفت ثابت کرنا کفر ہے۔ قاضیخان

حضرت نانوتویؒ کی عبارت میں کشتی اور کشتی سوار کی مثال سے موت کی نفی سمجھنا جہالت ہے

لطائف قاسمیہ کا حوالہ

ایک ہی حرکت کشتی کی طرف اولًا اور سوار کی طرف ثانیًا منسوب ہے۔ ھامش ملا حسن

تنقید متین کی عبارت سے حیات کا انکار سمجھنا نری جہالت ہے

لوازم حیات

صادی کے حوالے سے حدیث کو تمام دنیا میرے سامنے ہے، میں اس کو مثل کف دست دیکھتا ہوں

جملہ اسمیہ کی خبر فعل مضارع ہو تو دوام تجددی کا افادہ کرتا ہے

قرآنِ کریم سے اس کی مثال

جب دنیا میں وسعت نظری حاصل ہے تو آخرت میں کیوں مسلوب ہو گئی ہے؟

میت کو کفن پہنانے والے اور جنازہ پڑھانے والے کا علم ہوتا ہے (مرقات)

وقتِ موت حیاتِ انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام اور بھی شدید ہو جاتی ہے۔ لطائف قاسمیہ

الجواب

حدیث مذکور کی پوری تشریح تفریح الخواطر میں دیکھیں

اجمالًا جواب یہ ہے کہ اس کی سند میں نعیم بن حماد متکلم فیہ راوی ہے۔ تہذیب التہذیب

دوسرا راوی بقیّہ بن الولید ہے، اس پر بھی خاصی جرح ہے۔ تہذیب التہذیب

یہ مدلّس بھی تھا، اور تدیس زنا سے بھی بدتر جرم ہے

نووی، شرح مسلم

مدلّس ساقط العدالت ہے۔ تحفۃ الاحوزی

تیسرا راوی سعید بن سنان الرھاوی ہے، یہ بہت زیادہ ضعیف ہے۔ مجمع الزوائد

جملہ اسمیہ کی خبر فعل مضارع ہمیشہ دوام تجددی کا فائدہ نہیں دیتی۔ بخاری کی حدیث اس کی دلیل ہے

علمِ غیب کلّی اور حاضر و ناظر ہونے کی صفت آپؐ کو حاصل ہی نہ تھی تاکہ شکر اس کی زیادت کا سبب بنے

قبر مبارک میں آپؐ کو دنیوی جسم اطہر کے ساتھ حیات حاصل ہے، لیکن سب دنیوی لوازم اس کے لیے لازم نہیں

میت کا غسل دینے والے کفن پہنانے والے وغیرہ کو جاننا برحق ہے

شرح الصدور سے اس کا حوالہ

لیکن اس جاننے سے وہ وسعت نظری ثابت نہیں جو مؤلف مذکور کا مدعٰی ہے

اندھیرے اور اجالے میں یکساں دیکھنے کا بے بنیاد دعوٰی

بطور معجزہ احیانًا اجمالی شکل میں

مشاہدہ محلِ نزاع نہیں

بخاری کی حدیث سے اثبات

اندھیرے اجالے میں دیکھنے کی کوئی صحیح حدیث علمی تھیلے سے نکالو جو جعلی نہ ہو

برعکس اس کے کتے کا بچہ آپؐ کی چارپائی کے نیچے گھس گیا، آپؐ کو علم نہ ہوا

مسلم کی حدیث

دشمن کے حملے کا خطرہ پیدا ہوا تو آپؐ رات کو دور تک جائزہ لینے کے لیے گئے

بخاری کی حدیث

جوتی کے نیچے غلاظت کی اطلاع وحی سے ملی تو آپؐ کو خبر ہوئی

اس حدیث کے مأخذ

لطائف قاسمیہ کی عبارت سے مؤلف مذکور کا کوئی مطلب حاصل نہیں ہوا، نہ ہوتا ہے

آن واحد میں امکنۂ متعددہ میں حاضر ہونے کا امکان

جذب القلوب سے شیخ علاؤ الدین قونویؒ کا حوالہ

مرقات کا حوالہ کہ حضرات اولیاء کو طیّ الارض اور ابدان امکنۂ متعددہ حاصل ہو جاتے ہیں

فیصلۂ ہفت مسئلہ کا حوالہ

مشکٰوۃ شریف کی ایک روایت سے آن واحد میں امکنۂ متعددہ پر موجود ہونے کا استدلال

الجواب

صور مثالیہ کے تعدد سے علمِ غیب اور حاضر و ناظر ہونے کا قطعًا کوئی تعلق نہیں، کما مرَّ

مؤلف مذکور کے بزرگوں کے نزدیک بذاتِ خود جسم کے ساتھ ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا عقلًا اور نقلًا ممکن ہے

اس لیے تکثر جزئی کا اشکال ان پر بدستور عائد ہوتا ہے

اجساد میں نوع من التغایر سے کیا مراد ہے؟

ہر شق پر بدستور اعتراض وارد ہے

معراج کی رات ارواح انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام نے اجساد کی شکل اختیار کی تھی

فتح الباری و عمدۃ القاری

حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ کا حوالہ حق ہے مگر مؤلف مذکور کو سودمند نہیں

اشعۃ اللمعات کا حوالہ کہ خواب میں مثالی صورت نظر آتی ہے نہ کہ روح و جسم

مرقات کی عبارت میں بھی صور مثالیہ ہی مراد ہے

فیصلۂ ہفت مسئلہ کی عبارت بھی مؤلف مذکور کو مفید نہیں

پوری عبارت یوں ہے جو ان کے خلاف ہے

مرقات کے حوالہ میں اجساد مکتسبہ کا جملہ ہے جو صور مثالیہ پر دال ہے

حضرت ابوبکرؓ کو جنت کے ہر دروازے سے بلائے جانے کی حدیث بخاری سے

اور یہ صرف اعزاز و اکرام ہو گا نہ یہ کہ وہ سب دروازوں سے داخل ہوں گے

کیونکہ یہ محال ہے۔ ہامش بخاری

مؤلف مذکور موت کے بعد جس وسعت نظری کے قائل ہیں، یہ شرک کی ایک نوع ہے

تفسیر عزیزی

نذر و نیاز

مؤلف مذکور کی بدحواسی

فتاوٰی رشیدیہ خصم پر کوئی حجت نہیں

الجواب

مؤلف مذکور اہلال کی تشریح میں نقل کردہ ہمارے تقریباً چھ حوالوں سے لاجواب ہو کر ان کو پی گئے ہیں اور ڈھکار تک نہیں لیا

مؤلف مذکور نے اپنے اعلٰی حضرت کی کتابیں نہیں دیکھیں

حضرت گنگوہیؒ کا حوالہ اس لیے نقل کیا کہ ان کا فتوٰی دیگر مسلّم اکابر کے فتوٰی کے عین مطابق ہے

اور نیز تاکہ ان کے کم علم پیروکاروں کی تسلّی ہو جائے

بقول مؤلف مذکور، سرفراز صاحب کا پہلا شبہ کہ اہلال کے معنٰی ذبح کے کر کے صدر الافاضل نے غلطی کی ہے، اس سے صدر الافاضل کے کلام میں تحریف کی ہے

اور کلام میں تعارض ہے

الجواب

نہ تو ہم نے تحریف کی، نہ عادت ہے

خود آپ کے صدر الافاضل نے اُہلّ کے معنی ذبح کے کیے ہیں۔ خزائن العرفان کا حوالہ

اور حوالہ

اہلال کو ذبح کے معنٰی میں لینا اور لغیر اللہ کو بغیر اللہ کے معنٰی میں لینا کلام الٰہی کے تحریف کے قریب ہے

تفسیر عزیزی

ذبیحہ کے حرام ہونے کی صورتیں

ایک یہ ہے کہ ذابح عبادت کے طور پر تقرّب کی نیت کرے

بحوالہ حضرت شاہ عبد العزیز صاحبؒ

الجواب

صدر الافاضل غیر اللہ کے تقرب کے لیے جانور کو نامزد کرنا جائز کہتے ہیں

مذکورہ صورتوں کے علاوہ ذبیحہ کے حرام ہونے کی اور صورتیں بھی ہیں۔ فتاوٰی عزیزی

تقرب علٰی وجہ العبادۃ کو حرام اور محض تقرب لغیر اللہ کو حلال کہنا مؤلف مذکور کی غلطی ہے

حضرت شاہ صاحبؒ نے حضرت امام نوویؒ کا حوالہ دیا ہے

امام نوویؒ کی اصل عبارت یہ ہے

حضرت شاہ صاحبؒ کی اپنی عبارت، اکرام ضیف اور تعظیم غیر اللہ کا فرق

فتاوٰی عزیزہ کا مفصل حوالہ

قدوم امیر کے لیے ذبح کرنا حرام ہے۔ درمختار

حالانکہ اس کی عبادت کوئی بھی نہیں کرتا

جانور کی حرمت کے لیے تقرّب علٰی وجہ العبادۃ شرط نہیں، علٰی وجہ التقرّب ہی کافی ہے

فتاوٰی عزیزی اور تفسیر عزیزی کا حوالہ

ما اُھلّ کے معنی تقرب کے طور پر غیر اللہ کے لیے نامزد کرنا ہے۔ بت، روح خبیث، جن پیر اور پیغمبر وغیرہ کوئی بھی ہو

فتاوٰی عزیزی و تفسیر عزیزی

ایسا نامزد کیا ہوا جانور بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرنے سے بھی حلال نہیں ہوتا

فتاوٰی عزیزی و تفسیر عزیزی

ہاں اگر تقرب کی نیت سے کھلے طور پر توبہ کر لے تو پھر بنام خدا ذبح کرنا جائز ہے

فتاوٰی عزیزی و تفسیر عزیزی

ارخاءِ عنان

عبادت کا معنٰی تفسیر عزیزی سے

عبادت کس مقصد کے لیے کی جاتی ہے؟ تفسیر عزیزی

تقرب لغیر اللہ شرک ہے۔ قرآن کریم

شاہ عبد العزیز صاحبؒ اور نیاز کے جانور

ایصال ثواب کے لیے جو جانور نامزد کیے جاتے ہیں اس سلسلہ میں حضرت شاہ عبد العزیز صاحبؒ کی عبارات کا جواب ہم بار بار دے چکے ہیں

الجواب

حضرت شاہ صاحبؒ کی مفصل عبارات کے بزعم خویش فریق مخالف نے جو جوابات دیے ہیں وہ دفع الوقتی اور جان چھڑانے کا ناکام بہانہ ہے

غلط بیانی

صدر الافاضل نے ما اُھلّ کا معنٰی ذبح نہیں کیا

تفسیر عزیزی کا حوالہ

حضرت شاہ صاحبؒ کے نزدیک اس ذبیحہ کے حرام ہونے کی دو مستقل وجہیں ہیں (۱) تقرب غیر خدا (۲) جان کر غیر خالق کی طرف منسوب کرنا

مطلق تقرب الی الغیر شرک نہیں

ورنہ لازم آئے گا کہ ذوی القربٰی اور الّا المودّۃ فی القربٰی میں شرک کی تعلیم دی گئی ہے

یہ ذبیحہ اس لیے حرام ہے کہ مرتد کا ذبیحہ ہے

تفسیر عزیزی کا حوالہ

الجواب

اُھلّ کے معنی خود ان کے صدر الافاضل نے ذبح کے کیے ہیں

حضرت شاہ صاحبؒ کے نزدیک تقرب لغیر اللہ ہی وجہ حرمت ہے

مؤلف مذکور نے تقرب کی ایک قسم کو جائز اور دوسری کو شرک قرار دیا ہے، یہ ان کی جہالت ہے

لغوی تقرب اور فقہی تقرب کا فرق ہے

شامی اور تفسیر عزیزی کی عبارت کا مطلب پہلے بیان ہو چکا ہے

مؤلف مذکور نے تفسیر عزیزی کی عبارت کا معنٰی غلط کیا ہے

غیر اللہ کے لیے تقرب کے طور پر جانور کو نامزد کرنا عین شرک ہے

تفسیر عزیزی و فتاوٰی عزیزی

سوائب وغیرھا

تفسیر ابوالسعود اور حضرت ملا جیونؒ کا حوالہ

مشرکین بتوں کے نام پر مع قصد العبادۃ جانوروں کو نامزد کرتے تھے۔ جب مسلمان ان کو ذبح کریں تو حلال ہیں۔ تفسیر عزیزی میں کتے اور خنزیر کے ساتھ جس کو تشبیہ دی ہے وہ وہ جانور ہے جس کو مرتد ذبح کرے

الجواب

ما اُھلّ بہ لغیر اللہ اور بحیرہ وغیرھا کا اصولی فرق ہے جس کو فریق مخالف نظر انداز کرتا ہے

تفسیر ابن کثیر کا حوالہ

تفسیر ابوالسعود اور حضرت ملا جیونؒ کے حوالے ہمارے مؤید ہیں نہ کہ مخالف

کتے اور خنزیر کے ساتھ تشبیہ کی وجہ خباثت اور حرمت ہے نہ کہ ذبح مرتد

تفسیر عزیزی کی مفصل عبارت

وما اُھلّ بہ لغیر اللہ کا بحیرہ اور سائبہ پر قیاس قطعًا باطل ہے، نص سے ایک کی حرمت اور دوسرے کی حلّت ثابت ہے

حضرت شاہ صاحبؒ کی اپنی عبارت میں مع العبادۃ کی قید موجود نہیں ہے۔ فتاوٰی عزیزی سے ان کی اپنی عبارت

یہ قید حضرت امام نووی الشافعیؒ وغیرہ کی عبارتوں میں ہے

سائبہ وغیرھا کو حرام نہ سمجھنے والے قابل مذمت نہیں، کیونکہ اللہ تعالٰی نے ان کو حرام نہیں کیا، بخلاف ما اُھلّ کے

دوسری وجہ

گوشت مقصود نہ ہو بلکہ غیر اللہ کو جان دینا مقصود ہو، جیسے کافر بھینٹ چڑھاتے ہیں

فتاوٰی عزیزی سے استدلال

ایصال ثواب جائز ہے۔ فتاوٰی عزیزی

الجواب

ایصال ثواب نزاعی مسئلہ نہیں ہے

ما اُھلّ لغیر اللہ بہ اور نذر جدا چیز ہے

ایصالِ ثواب کی مد میں نامزدگی کا کوئی ذکر نہیں

فتاوٰی عزیزی اور تفسیر عزیزی کے حوالے

نذر اور ایصالِ ثواب جدا جدا ہیں

مگر اولیاء کرامؒ کے لیے نذر ماننا ایصال ثواب کو مستلزم ہے

حضرت ام سعدؓ کی حدیث سے استدلال

نذر ماننے والا اگر ولی کو حلّال المشکلات بالاستقلال، یا شفیع غالب اعتقاد کرے تو شرک ہے

فتاوٰی عزیزی

الجواب

مؤلف مذکور نے نذر اور ایصال ثواب کو الگ الگ چیزیں تسلیم کر لیا ہے

فتاوٰی عزیزی کی پوری عبارت جس کو مؤلف مذکور پی گئے ہیں

یہاں نذر لغوی معنٰی میں ہے یعنی نذرانہ و ایصال ثواب

فتاوٰی عزیزی

بالاستقلال اور غیر استقلال کا معنٰی

تفسیر عزیزی سے

نذر باطل اور ممنوع کی مفصل بحث فتاوٰی عزیزی سے

حضرات اولیاء کرام کے لیے نذر بالاجماع باطل اور حرام ہے

فتاوٰی عزیزی

تقرب لغیر اللہ لاجل التعظیم حرام ہے، اور لاجل الاکل والانتفاع حلال ہے

فتاوٰی عزیزی

نذر میں ایصال ثواب کا پیوند

روح المعانی کا مفصل حوالہ

تنقیحات

حضرات اولیاء کرامؒ کے نام پر نامزدگی کی حرمت کی تین وجہیں ہیں (۱) تعظیم مع قصد العبادت (۲) بھینٹ چڑھانا (۳) اولیاءؒ کو مستقل بالذات سمجھنا

الجواب۔ حضرت شاہ صاحبؒ کی اپنی عبارات سے

نوٹ

بزعم خویش البحر الرائق، شامی، اور عالمگیری کے حوالہ کا جواب

الجواب

خود حضرات فقہاء کرامؒ کی صریح عبارات اس جواب کا انکار کرتی ہیں۔ اس کی تشریح

کثیفہ مؤلف مذکور نے من دون اللہ کے معنٰی اللہ تعالٰی کی مرضی کے بغیر کے کیے ہیں، اور یہ غلط ہے

البحر الرائق، شامی، اور عالمگیری میں حرمت کی جتنی وجہیں درج ہیں، عوام کی نذر میں وہ سب پائی جاتی ہیں

وقت ذبح کی قید

مولوی سرفراز کہتا ہے کہ اُھلّ کا معنٰی ذبح نہیں

حالانکہ تفسیر روح المعانی، ابوالسعود، بیضاوی، جمل، تفسیرات احمدیہ، روح البیان، مدارک، اشعۃ اللمعات اور احکام القرآن میں ذبح کیے ہیں

الجواب

فتاوٰی عزیزی سے ان تفاسیر کا محمل

حرمت کی ایک وجہ یہ بھی ہے جو ان تفسیروں میں مذکور ہے

مگر حرمت اس میں منحصر نہیں بلکہ التقرب للتعظیم بھی ایک وجہ ہے

سرفراز صاحب کا دوسرا شبہ کہ فریق مخالف کے نزدیک لغیر اللہ سے صرف بت مراد ہیں

یہ ہم پر اور صدر الافاضل پر افتراء ہے

الجواب

صدر الافاضل کی عبارت میں بتوں کا لفظ اور حصر کا لفظ موجود ہے

صدر الافاضل کے مزید حوالے

مفتی احمد یار خان صاحب کے حوالے

لغیر اللہ اور بغیر اللہ کا فرق اور سرفراز صاحب کا تیسرا شبہ کہ ان کے کلام میں تضاد و تعارض ہے، اصل مقصد غیر اللہ کو مالی امداد کا مستحق سمجھنا ہے

الجواب

ما اُھلّ لغیر اللہ میں اس کو مالی عبادت کا مستحق سمجھنا قطعًا غلط اور ایجاد بندہ ہے

کسی ملک کے سربراہ کی آمد پر توپیں داغنے یا جانور بھینٹ چڑھانے کو کوئی عبادت نہیں سمجھتا، ہاں تعظیم ضرور سمجھتے ہیں

سابق شاہ ایران کے لیے بھی جانور بھینٹ چڑھائے گئے تھے

اُھلّ کو ذبح پر حمل کرنا اور لغیر اللہ کو باسم غیر اللہ مراد لینا کلام الٰہی میں تحریف کے قریب ہے

فتاوٰی عزیزی و تفسیر عزیزی

پہلے زمانہ کے مشرک شرک میں مخلص تھے، اب کے چالاک، ہوشیار اور منافق ہیں

معصومانہ انداز

حلال و حرام کرنا اللہ تعالٰی کا کام ہے اور دونوں میں دلیل درکار ہوتی ہے

مگر مفتی احمد یار خان صاحب لکھتے ہیں کہ حلال ہونے کے لیے دلیل کی ضرورت نہیں

ان کے چند حوالے

حلّت و حرمت دونوں محتاج دلیل ہیں

قرآن کریم

سرفراز صاحب کا چوتھا شبہ کہ وہ ولی کے نام پر نامزد کرنے کے لیے جلب منفعت یا دفع مضرت کی قید لگاتے ہیں، حالانکہ صدر الافاضل نے یہ الفاظ کہیں نہیں فرمائے

ایصال ثواب مولانا گنگوہیؒ اور مولانا تھانویؒ کے نزدیک بھی جائز ہے

انفاس العارفین کا حوالہ کہ اس سے جلب منفعت اور دفع مضرت ثابت ہے، پھر بھی انہوں نے کھایا

الجواب

ایصال ثواب درست ہے مگر وہ اُھلّ کے علاوہ ہے

اگر یہ نامزدگی ایصال ثواب ہے تو پھر ماں باپ وغیرہ کے لیے کیوں نہیں کی جاتی جو زیادہ محتاج ہیں

ایصال ثواب اور نذر دو الگ الگ چیزیں ہیں

ایصال ثواب تقرب اور تعظیم لغیر اللہ میں شامل نہیں

بعض افعال ہی اعتقاد پر دال ہوتے ہیں

ایصال ثواب میں اپنا مطلب شامل نہیں ہوتا

غیر اللہ کی تعظیم و تقرب کرنے والے بھی دنیا میں موجود ہیں

صدر الافاضل کا حوالہ کہ کعبہ میں تین سو ساٹھ پتھر نصب تھے

یہ صرف پتھر ہی نہ تھے بلکہ ان میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے مجسمے بھی تھے

بخاری

اور حضرت مریمؑ کا بھی۔ مسند احمد

مشرکین ان کو تقرب الٰہی کا ذریعہ اور سفارشی مانتے تھے اور یہی حال کلمہ گو مسلمانوں کا ہے

دلچسپ گپ

حضرت غوث الاعظم کو ایصال ثواب کرنے والے اور طرح طرح کے کھانے پکا کر علماء اور فقراء کو کھلانے والا ہندو بھی بخشا گیا

ضیاء حرم کا حوالہ

تو پھر کلمہ گو کی بخشش میں کیا رکاوٹ ہے؟

انفاس العارفین کے حوالہ سے مؤلف مذکور کا مطلب ثابت نہیں ہوتا

حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ وغیرہ بزرگ ہمارے مزعوم اکابر نہیں بلکہ بالیقین اکابر ہیں

نذر ناذر کے خیال میں جلب منفعت اور دفع مضرت کا سبب ہوتی ہے

جب کہ حقیقت میں نذر سے کچھ نہیں بنتا۔ بخاری شریف

نذر ولی کے لیے نہیں مانی گئی تھی بلکہ ان کے دربار میں جو بیٹھے ہوئے مصرف تھے وہ مراد تھے

سرفراز صاحب کا پانچواں شبہ کہ اگر مَا اُھلّ کو وقت ذبح کے ساتھ مقید کریں تو الّا ما ذکّیتم کی استثناء سب کو لاحق ہو گی جو خلاف واقع ہے

حالانکہ صدر الافاضل نے سب امور مذکورہ مراد نہیں لیے تاکہ مردار اور خنزیر کو بھی لاحق ہو

اگر مَا اُھلّ کو مَا ذُبح پر محمول کیا جائے تو الّا مَا ذکّیتم کی استثناء سے تحصیل حاصل لازم آتا ہے

علماء کی عبارات میں مفہوم مخالف معتبر ہوتا ہے

حضرت ملا جیونؒ کا حوالہ کہ الّا مَا ذکّیتم، مَا اُھلّ کو لاحق نہیں کیونکہ اُھلّ، ذُبحَ کے معنٰی میں ہے

علامہ آلوسیؒ کا حوالہ کہ استثناء مَا اُھلّ کو بھی شامل ہے۔ جیسا کہ حضرت علیؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے

اس آیت کریمہ میں نو مُحرمات ہیں

الجواب

بقول صدر الافاضل اور مفتی احمد یار خان صاحب گیارہ محرمات ہیں

مؤلف مذکور کے کلام میں تضاد ہے

اُھلّ کو ذُبحَ پر مخلص مشرکوں کے حق میں حمل کیا گیا ہے

مفہوم مخالف کے حجت ہونے اور نہ ہونے میں اختلاف ہے۔ نبراس

حضرت ملا جیونؒ نے اُھلّ کے معنی نامزد کرنے کے بھی کیے ہیں

تفسیرات احمدیہ کے حوالے

حضرت مولا جیونؒ کی عبارت میں استثناء کے لاحق نہ ہونے کی علّت ان اشیاء کی حرمت ذاتیہ بھی ہے

علامہ آلوسیؒ کی نقل کردہ عبارت کا مطلب؟

روح المعانی کے حوالے

مؤلف مذکور نے لفظ تزکیہ پر غور نہیں کیا

دین کی کمی اور عقل کی خامی

فریق مخالف کے صدر الافاضل پر صرف مَا اُھلّ کی تفسیر کے سلسلہ میں ہماری تنقید اور گرفت دس وجوہ کی بناء پر بدستور قائم ہے

سرفراز صاحب کا چھٹا شبہ کہ ایصال ثواب چن چن کر بزرگوں کو کیوں کیا جاتا ہے، ماں باپ وغیرہ کو کیوں نہیں کیا جاتا، حالانکہ ہم سب کو ایصال ثواب کرتے ہیں

مولوی سرفراز صاحب کو بزرگوں سے عداوت ہے، ہم انّما رزقنٰھم ینفقون کی بحث میں ایصال ثواب ذکر کر چکے ہیں

مولوی سرفراز صاحب علمی مار کھانے کے شائق ہیں

الجواب

ہم نے مَا اُھلّ لغیر اللہ بہ کی بحث میں کہا ہے کہ اگر اس سے ایصال ثواب مراد ہے تو جانوروں کی نامزدگی اور تقرب ماں باپ کے لیے کیوں نہیں کیا جاتا، اولیاء کرامؒ کی تخصیص کیوں کی جاتی ہے، مطلق ایصال ثواب کی بات محل نزاع نہیں ہے

بزعم خویش ایصال ثواب اور نذر و منت کی اصل وجہ

بہار شریعت کا حوالہ

اصلی بہشتی زیور کا اعلان

ہم پر حضرات اولیاء کرامؒ کی عداوت کا الزام سفید جھوٹ اور خالص افتراء ہے

ہم حضرات اولیاء کرامؒ کی دشمنی کو اللہ تعالٰی سے جنگ کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں

حدیث بخاری

ہم اللہ تعالٰی کے نیک بندوں کے تذکرہ کو نزولِ رحمتِ خداوندی کا سبب سمجھتے ہیں

بفضلہ تعالٰی ہم نے بھی ومِمّا رزقنٰھم کی تفسیر اتمام البرہان ہی میں مفصل کر دی ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے