اظہار العیب فی کتاب اثبات علم الغیب

جس میں بتوفیق اللہ تعالٰی غیر اللہ سے علمِ غیب کی نفی اور علمِ غیب کے صرف خاصۂ باری تعالٰی ہونے کے مضبوط دلائل بیان کیے گئے ہیں۔ اور غیر اللہ کے لیے اور علی الخصوص امام الانبیاء خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے علمِ غیب ثابت کرنے والوں کے اصولی شبہات اور نام نہاد دلائل کا بفضلہٖ تعالٰی خوب رد کیا گیا ہے۔ اور ’’ازالۃ الریب‘‘ پر کیے گئے اعتراضات کی کائنات اور تانابانا خوب اجاگر کیا گیا ہے اور ان کے دندان شکن جوابات دیے گئے ہیں۔ واللہ یقول الحق وھو یھدی السبیل۔

فہرست: اظہار العیب فی کتاب اثبات علم الغیب

پیش لفظ

کتاب ازالۃ الریب کے بارے میں

کتاب اثبات علم الغیب، ازالۃ الریب کے جواب سے قاصر ہے

ازالۃ الریب کی ایک عبارت پر گرفت اور اس کا جواب

حدیث نور کی تشریح

الآثار المرفوعۃ۔ نشر الطیب اور مرقات سے

فریق مخالف اللہ تعالٰی کے ذاتی نور سے آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور کو تسلیم کرتا ہے

رسالہ حنفی لاہور کا حوالہ

نجم الھدٰی اور کحل الابصار کا حوالہ

قضاء مبرم اور معلق کے بارے میں تنقید اور اس کا جواب ازالۃ الریب سے

حضرات اولیاء کرامؒ کے لیے تصرف فی الکائنات اور تصرف فی الاکوان تسلیم کر لینے کا الزام

اور اس کا جواب

مبلغ دس ہزار روپے کا خالص جاہلانہ چیلنج

سرفراز صاحب کہتے ہیں کہ فریقِ مخالف کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ۶ھ تک اپنی نجات اور فلاح کا علم نہ تھا اور یہ ہمارے اکابر پر افتراء ہے

ہمارا چیلنج ہے کہ اس کا ثبوت پیش کریں

الجواب

ازالۃ الریب کی مفصل عبارات سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لی گئی ہیں

حضرت مولانا گنگوہیؒ کے رد میں خانصاحب کا مفصل حوالہ

مفتی احمد یار خان صاحب اور مولوی محمد عمر صاحب کا حوالہ

مراد آبادی صاحب کا حوالہ

خود مؤلف مذکور کا حوالہ کہ ۶ھ تک آپؐ کو اپنی مغفرت کا علم نہ تھا

کیا یہ آپ کے اکابر نہیں؟

مغفرت، نجات اور فلاح ہم معنٰی الفاظ ہیں

فیروز اللغات

ھامش بخاری سے مؤلف مذکور کا مزید حوالہ

علم و درایت کا یہاں ایک ہی مفہوم ہے

ہاں اللہ تعالٰی کے لیے علم کا لفظ بولا جا سکتا ہے، درایت کا نہیں

علمِ غیب کلی کا تدریجی دعوٰی صرف دفع الوقتی ہے

خانصاحب نے لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک کا لفظی ترجمہ بالکل غلط کیا ہے

حضرات مفسرین کرامؒ پر وما ادری (الآیۃ) کو منسوخ تسلیم کر کے بھی کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا، بخلاف فریق مخالف کے کہ وہ اعتراض کی زد میں ہے

باب اول

مؤلف مذکور کے علم غیب کے متعلق دعوٰی کے الفاظ

اس کی پہلی دلیل

ونزلنا علیک الکتاب تبیانًا لکل شیءٍ

اپنے دعوٰی کو واضح کرنے کے لیے کتب اصولِ فقہ کے حوالے

حضرت امام شافعیؒ کے نزدیک عام قطعی نہیں ظنّی ہے

استغراق سے حقیقی نہیں بلکہ عرفی مراد ہے

منطقی طور پر صغرٰی یہ ہے: کلُّ شیءٍ فی القرآن

اور کبرٰی یہ ہے: وکلُّ القرآن فی صدرہ علیہ السلام

اور نتیجہ یہ ہے: فکلُّ شیءٍ فی صدرہ

لہٰذا ہمارا مدعٰی ثابت ہے

الجواب

مؤلف مذکور کا یہ دعوٰی اور اس کی بیان کردہ دلیلیں ان کے اعلٰی حضرت کی بیان کردہ ہیں

انباء المصطفٰی کی مفصل عبارت

تا دخول جنت و نار بلکہ اس سے کچھ زیادہ علمِ غیب کا دعوٰی نامکمل اور ادھورا ہے

ان کے اعلٰی حضرت آپؐ کے لیے دونوں جہانوں میں سب جلی اور خفی کے علم کے قائل ہیں (حدائق بخشش)

کلّ شیءٍ سے علم غیب پر استدلال باطل ہے

اولًا اس لیے کہ ان کا علم غیب عطائی کا دعوٰی تکمیل نزولِ قرآن کریم کے وقت کا ہے، اور یہ آیت سورۃ النحل کی ہے جو مکی ہے

وثانیًا اس لیے کہ اگر اس سے علمِ غیب ثابت ہے تو خود قرآن کریم میں اس کے بعد نفی علمِ غیب کی آیات کیوں نازل ہوئیں؟

وثالثًا اس لیے کہ لفظ کل کی مفصل بحث ازالۃ الریب میں موجود ہے جس کو یہاں مؤلف مذکور نظر انداز کر گئے ہیں

ورابعًا اس لیے کہ تبیانًا لکل شیءٍ سے امورِ دین مراد ہیں

لفظ کل نکرہ کی طرف بھی مضاف ہو تو استغراق عرفی کا فائدہ بھی دیتا ہے۔ جلالین کا حوالہ

وخامسًا اس لیے کہ خود مؤلف مذکور مقرّ ہیں کہ استغراق سے حقیقی نہیں بلکہ عرفی مراد ہے

اور جن جن افراد کو یہ شامل ہوتا ہے ان کا احاطہ قطعی ہوتا ہے

وسادسًا اس لیے کہ احتجاج بالعموت کا کوئی منکر نہیں

لیکن کل شیءٍ عموم کے لیے نہیں بلکہ امور دین کے لیے ہے، نہ کہ معاذ اللہ تعالٰی علم سحر اور سیمیا وغیرہ کے لیے

وسابعًا اس لیے کہ لفظ عام کے قطعی ہونے کا نہ تو کوئی حنفی منکر ہے اور نہ ہم نے انکار کیا ہے

عام جن جن افراد کو شامل ہوتا ہے ان میں قطعی ہوتا ہے

المنار کا حوالہ

وثامنًا اس لیے کہ سورۃ النحل کے بعد چوالیس سورتیں نازل ہوئی ہیں، یہ قرینہ صارفہ قطعیہ ہے کہ یہاں ہرگز عموم مراد نہیں ہے

وتاسعًا اس لیے کہ حضرت امام شافعیؒ بھی ہر عام کو ظنّی نہیں کہتے بلکہ اس عام کو ظنّی کہتے ہیں جس میں خصوص کا احتمال ہو

نورالانوار مع قمرالاقمار کا حوالہ

وعاشرًا اس لیے کہ ان کے قیاس کا صغرٰی کلّ شیءٍ فی القرآن مسلّم نہیں ہے

کیونکہ اگر کُلّ شیءٍ فی القرآن سے کل اصولِ دین اور کلیاتِ دین مراد ہوں تو یہ ان کو مفید نہیں ہے

اور اگر اس سے ہر ہر چیز مراد ہو تو یہ نقلًا و عقلًا مسلّم نہیں

نقلاً تو اس لیے کہ قرآن کریم میں ہر ہر چیز مذکور نہیں

حضرت معاذؓ کی مرفوع حدیث سے اس کا ثبوت

اس کے مأخذ اور اس کی تصحیح

حضرت ابوبکرؓ کی حدیث سے اس کا ثبوت

اس کے مأخذ اور اس کی تصحیح

اور عقلًا اس لیے کہ اگر قیامت تک پیش آنے والے تمام مسائل قرآن کریم میں موجود ہیں تو پھر کتب حدیث و فقہ کی کیا ضرورت ہے؟

اگر قرآن کریم میں ہر ہر چیز واضح، مفصل اور روشن طور پر موجود ہے تو کم از کم نمازوں کی رکعات اور زکٰوۃ کا نصاب ہی واضح اور روشن طور پر بتلا دیا جائے

اس سلسلہ میں حضرت عمرانؓ بن حصینؓ کی حدیث اور اس کے مأخذ

یہ دعوٰی کہ قرآن کریم میں ہر ہر چیز مفصل طریقہ پر مذکور ہے فریقِ مخالف کے ہاں بھی مسلّم نہیں ہے

ان کے اعلٰی حضرت کا حوالہ

جناب پیر مہر علی شاہ صاحب کا حوالہ

ان کے صدر الافاضل کا حوالہ

جناب مفتی احمد یار خان صاحب کا حوالہ

مولوی محمد عمر صاحب کا حوالہ

ان کے مولانا مفتی مظہر اللہ صاحب کا حوالہ

مفتی شجاعت علی صاحب کا حوالہ

مولوی خلیل احمد صاحب برکاتی کا حوالہ

علامہ نور بخش صاحب توکلی کا حوالہ

جناب مولانا سید احمد شاہ صاحب کاظمی کا حوالہ

جناب مولانا پیر محمد کرم شاہ کا حوالہ

جناب پروفیسر طاہر القادری صاحب کا حوالہ

حادی عشر بالتدریج کے لفظ سے مغالطہ دینا بھی بالکل بے سود ہے

قرآن کریم کی آخری سورت التوبۃ میں نفی علمِ غیب کا ثبوت تو ہے مگر اثبات کا نہیں اور نہ ہی کسی خبر متواتر سے اس کا ثبوت ہے

ان کے اعلٰی حضرت کا تبیانًا لکل شیءٍ سے استدلال کہ اس میں بیان اشیاء اس طرح پر ہے کہ اصلًا خفاء نہیں

ملفوظات حصہ اول

اگر اس سے یہ مراد ہے کہ ہر ہر چیز کا بیان قرآن کریم میں مذکور ہے اور اس میں کوئی خفاء نہیں تو یہ باطل ہے کیونکہ ہر ہر چیز قرآن کریم میں مذکور نہیں

اور اگر یہ مراد ہے کہ جو جو امور قرآن کریم میں مذکور ہیں ان میں اصلًا کوئی خفاء نہیں تو یہ بھی باطل ہے

کیونکہ متشابہات کا علم بجز اللہ تعالٰی کے کسی کو نہیں

جلالین کا حوالہ

اور یہی جمہور علماء کا مسلک ہے۔ ہامش جلالین

التفسیرات الاحمدیہ کا حوالہ

حروف مقطعات کا علم بھی بغیر اللہ تعالٰی کے اور کسی کو نہیں، اور قرآن کریم میں ان کی تعداد انتیس ہے

التفسیرات الاحمدیہ کا حوالہ

تفسیر ابن کثیر کا حوالہ

اور اس مذکور بحث سے مؤلف مذکور کا کبرٰی بھی باطل ہو گیا

اور قطع نظر بطلان کبرٰی کے نتیجہ سالبہ کلیہ ہی آئے گا

خانصاحب کی تحقیق انیق

عرض: تورات کے بارے بھی وتفصیلًا لکلّ شیءٍ آیا ہے۔ اگر حضرت موسٰی علیہ السلام کا حضرت خضر علیہ السلام کے پاس جانا تورات ملنے کے بعد ہے تو تحصیل حاصل کا کیا فائدہ؟ (محصلہ)

ارشاد: حضرت موسٰی علیہ السلام نے تورات کی تختیاں پھینک دی تھیں، وہ ٹوٹ گئیں اور تفصیل کل شیءٍ اڑ گئی

حضرت مجاہدؒ کا حوالہ۔ ملفوظات حصہ سوم

اس کا جواب: اولًا سائل نے قرآن کریم کی لفظی تحریف کی اور خانصاحب خاموش رہے

وثانیًا تفصیل کل شیءٍ کا اڑ جانا قرآن کریم کے خلاف ہے

وثالثًا یہ روایت تردد کے ساتھ حضرت مجاہدؒ یا حضرت سعیدؒ بن جبیر سے ہے

تفسیر ابن جریر

مگر اس سے استدلال درست نہیں

ایک تو اس لیے کہ راوی کو تردّد ہے کہ یہ روایت حضرت مجاہدؒ سے ہے یا حضرت سعیدؒ سے

اور دوسرے اس لیے کہ یہ تابعی ہیں جو غیر معصوم اور غیر محفوظ ہیں، ان کے قول سے قطعی چیز کیسے اڑ گئی؟

اور تیسرے اس لیے کہ اس کی سند میں خصیفؒ ہے جو جمہور ائمہ جرح و تعدیل کے نزدیک ضعیف ہے

تہذیب التہذیب کا حوالہ

اور جن حضرات مفسرین کرامؒ نے یہ واقعہ نقل کیا ہے تو رُوی، قیل، اور قالت الرواۃ کے الفاظ سے نقل کیا ہے

تفاسیر کے نام

بعض حضرات مفسرین کرامؒ نے تختیاں ٹوٹنے اور اڑ جانے کا انکار کیا ہے کیونکہ یہ ظاہر قرآن کریم کے خلاف ہے

روح المعانی اور درمنشور کا حوالہ

بلکہ ایسی بات کہنا قرآن کریم کے خلاف جرأت عظیمہ ہے

تفسیر کبیر اور السراج المنیر

تفسیر در منشور، روح المعانی، اور مظہری سے القٰی الالواح کی حدیث

مسند احمد اور مستدرک میں فانکسرت کے الفاظ نہیں ہیں، اور طبرانی طبقہ ثالثہ کی کتاب ہے

خبر واحد صحیح بھی ہو تو اس سے قرآن کریم کی تخصیص جائز نہیں ہے

انباء المصطفٰی کا حوالہ

حضرت مجاہدؒ کی روایت سے خانصاحب کا شیدائی بھی مطمئن نہیں

عرض و ارشاد: ملفوظات حصہ سوم

جواب صرف دفع الوقتی ہے

اول: اس لیے کہ اگر قرآن کریم میں ہر ہر چیز روشن اور مفصل ہے تو قرآن کریم کے احادیث اور اقوالِ ائمہ پر موقوف ہونے کا کیا معنٰی؟

دوم: اس لیے خبر واحد اور قول امام سے نہ تو نص قطعی کی تخصیص ہو سکتی ہے اور نہ اس سے نص کو اڑایا جا سکتا ہے

خانصاحب کے شیدائی کا اور اعتراض کہ قرآن کریم کے بارے میں تبیانًا لکل شیءٍ فرمایا گیا ہے، یہ نہیں فرمایا گیا کہ یہ باقی بھی رہے گا، تو ما کان و ما یکون کا علم کس طرح ثابت ہوا؟

ارشاد: کسی حدیث سے تبیانًا لکل شیءٍ کے خلاف نہیں آیا

اور نبوت کا معنٰی ہی اطلاع علی الغیب ہے

شفاء، مدخل، اور مواہب لدنیہ (ملفوظات حصہ سوم)

الجواب

(۱) قرآن کریم اصول دین کی حد تک تبیانًا لکل شیءٍ ہے اور یہ تبیان تا قیامت باقی رہے گا

(۲) جب قرآن کریم میں ہر ہر چیز کا ذکر نہیں تو اس سے علم ما کان و ما یکون کا اثبات قطعًا غلط ہے

(۳) احادیث صحیحہ تو درکنار خود قرآن کریم کی نصوص قطعیہ مثلًا لا تعلمھم نحن نعلمھم وغیرھا تبیانًا لکل شیءٍ کی نفی کرتی ہیں

اور احادیث ازالۃ الریب میں دیکھیں

(۴) انبآء الغیب کا کوئی مسلمان منکر نہیں

لیکن ہر ہر ذرّہ کے علم کا دعوٰی نصوص قطعیہ کے خلاف ہے

قاضی عیاضؒ، ابن حجر مکیؒ، اور امام قسطلانیؒ کی عبارات کے جوابات خود ان کی اپنی کتابوں سے

شیدائی کی عرض کہ الفاظ کے ساتھ معانی کی حفاظت کا بھی وعدہ ہے

خان صاحب کا ارشاد کہ معانی کا علم ہونا کیا ضرور؟

نبی کلامِ الٰہی کے سمجھنے میں بیانِ الٰہی کا محتاج ہوتا ہے

اور ممکن ہے کہ بعض آیات کا نسیان ہوا ہو

الجواب

خان صاحب نے اپنے اختراعی عقیدہ کی حفاظت کے لیے آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو قرآن کریم کے معانی سے بھی بے خبر تسلیم کیا (العیاذ باللہ) اور نسیان کا مرتکب بھی

کیا یہ ایسا ہی شوشہ نہیں جیسا کہ محمد بن اسحاق کذاب اور دجال کی روایت میں ہے کہ قرآن کریم کے کچھ اوراق حضرت عائشہؓ کی بکری کھا گئی تھی

مسئلہ نسیان

آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حق میں قرآن کریم کی کسی آیت کریمہ کے نسیان کی تفصیل ہے

اس کی پہلی صورت جائز ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کو جس آیت کا منسوخ کرنا منظور تھا، اس کو آپؐ کے ذہن مبارک سے کلیۃً نکال دیا، اور یہ الّا ما شاء اللہ کی استثناء کے مطابق ہے

دوسری صورت عارضی نسیان اور یہ بھی جائز ہے

اس کے بارے میں بخاری کی حدیثیں

تیسری صورت یہ کہ ابھی ان آیات کی تبلیغ بھی نہیں کی اور نسخ بھی ان کی مطلوب نہیں، یہ نسیان جائز نہیں

حافظ ابن حجرؒ کا حوالہ

دوسری دلیل

وتفصیل کل شیءٍ کہ قرآن کریم میں ہر چیز کی تفصیل ہے

لفظ کل، شیءٍ نکرہ کی طرف مضاف ہے جو مفید استغراق ہے

لفظ غیر کی اضافت کے بعد بھی نکارت زائل نہیں ہوتی

الجواب

تفصیل کل شیءٍ سے ان کا دعوٰی ثابت نہیں ہوتا، جیسا کہ مفصل پہلے بیان ہو چکا ہے

یہ الفاظ تورات کے بارے میں بھی وارد ہوئے ہیں، تو چاہیے کہ قرآن کریم اور تورات کے علوم برابر ہوں

کل شیءٍ کی تفسیر کتب تفسیر کے حوالہ سے ازالۃ الریب میں موجود ہے

مؤلف مذکور دعوٰی اور دلیل کی مطابقت سمجھنے سے بھی قاصر ہیں

قاضی بیضاویؒ اور علامہ خازنؒ کی تفسیر میں امور دینیہ اور حلال و حرام وغیرہ احکام کا ذکر ہے

وغیر ذالک سے دین ہی کے بقیہ امور مراد ہیں

علم سحر اور سیمیا وغیرہ ناپاک علم ہرگز مراد نہیں

علم سیمیا نہایت ناپاک علم ہے (ملفوظات)

مؤلف مذکور تو قاضی بیضاویؒ اور علامہ خازنؒ کی تفسیر سے تعمیم ثابت کرتے ہیں

مگر ان کے اعلٰی حضرت اس سے تخصیص سمجھ رہے ہیں

قاضی بیضاویؒ اور علامہ خازنؒ ائمہ تفسیر میں سے نہیں ہیں (ملفوظات حصہ سوم)

اعلٰی حضرت کے ایک عقیدت مند کا غلوّ کہ ان سے غلطی ناممکن ہے

خان صاحب کی دیگر بے شمار غلطیوں کے علاوہ ایک یہ ہے کہ عبد الرحمٰن بن عبد القاری کو، جو صحابی یا ثقہ تابعی تھے، کافر، خنزیر اور شیطان کہتے ہیں (معاذ اللہ تعالٰی)

در حقیقت یہ واقعہ عبد الرحمٰن الفزاری کا تھا

مسلم اور مشکٰوۃ کے حوالے

کتب اسماء الرجال کے حوالے

تیسری دلیل: ما فرّطنا فی الکتاب من شیءٍ

طرز استدلال کتاب سے قرآن کریم مراد ہے

نور الانوار

شیءٍ نکرہ تحت النفی مفید عموم و استغراق ہے

نتیجہ قیاس اقترانی سے موجبہ کلیہ برآمد ہو گا

مفسرین کرامؒ کی امور دین اور یحتاج الیہ کی قیود اتفاقی ہیں احترازی نہیں

ایک چیز کا ذکر دوسری چیز کی نفی کو مستلزم نہیں

تقیکم الحرّ میں گرمی سے بچانے کا ذکر ہے سردی سے بچانے کا نہیں اور نہ وہ منفی ہے

امور دین کا ذکر غیر امور دین کی نفی کو مستلزم نہیں

پھر مفسرین کرامؒ کے اقوال سے کتاب اللہ کے مطلق و عام کو مقید و مخصوص کرنا کہاں کا انصاف ہے؟

جب کہ خبر واحد صحیح سے بھی تخصیص نہیں ہو سکتی

پورا قرآن کریم تفصیل کل شیءٍ ہے

قرآن کریم کی تخصیص کی آیات مثلاً لا تعلمھم (الآیۃ) وغیرھا کو نکالنے سے قرآن کریم مکمل نہیں رہتا

اور کوئی خبر متواتر اور مشہور علمِ غیب کی نفی نہیں کرتی

عمومات قرآنیہ سے استدلال اتفاقی بات ہے

لفظ کُلّ کی بحث میں ہم سرفراز صاحب کو لطف اندوز اور مسکت جواب دیں گے

الجواب

اولاً تو الکتاب سے قطعی طور پر قرآن کریم ہی مراد لینا غلط ہے، اس سے لوح محفوظ بھی مراد لی گئی ہے

تفسیر جلالین، خزائن العرفان، نور العرفان

اور اگر قرآن کریم بھی مراد ہو تو بھی اس میں ہر ہر شئے مذکور نہیں

وثانیًا حضرت ملا جیونؒ کی عبارت مؤلف مذکور کو مفید نہیں، کیونکہ وہ قیاس کے بھی قائل ہیں اور قیاس تب ہی ہو سکتا ہے کہ جب قرآن کریم میں ہر ہر شئے موجود نہ ہو

نورالانوار کا حوالہ

احکام کے دلائل کتاب و سنت اور قیاس ہیں

التفسیرات الاحمدیہ

تمام چیزیں قرآن کریم میں مذکور نہیں ہیں۔ قمر الاقمار

التفسیرات الاحمدیہ کا حوالہ مؤلف مذکور کو مفید نہیں

وثالثًا لفظ کُلّ شیءٍ کے عموم و استغراق اور قیاس اقترانی کا جواب پہلے گزر چکا ہے

ورابعًا حضرات مفسرین کرامؒ نے جو قیود لگائی ہیں وہ احترازی ہیں، اتفاقی نہیں، ورنہ علم سحر اور سیمیا وغیرہ ناپاک علم بھی اس میں داخل ہوں گے

وخامسًا اگرچہ کسی چیز کا ذکر دوسری چیز کی نفی کو مستلزم نہیں لیکن اگر کسی چیز کی نفی ہی قرآن کریم سے ثابت ہو تو اس کو کیا کیا جائے

قرآن کریم سے اس کی بعض مثالیں

وسادسًا مؤلف مذکور کی جہالت ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں گرمی سے بچانے کے لباس کا ذکر ہے مگر سردی سے بچانے کا نہیں حالانکہ لکم فیھا دفء اور ومن اصوافھا واوبارھا میں سردی سے بچانے کے لباس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے

حضرات مفسرین کرامؒ کی قیود بالکل برمحل اور بجا ہیں

وسابعًا حضرات مفسرین کرامؒ کے اقوال سے کتاب اللہ کے مطلق و عام کے مقید و مخصوص کرنے کو خلاف انصاف کہنا نری جہالت ہے

اول تو اس لیے کہ کیا حضرت ملا جیونؒ مفسر نہیں؟ جنہوں نے الکتاب کو قرآن کریم سے مخصوص کر دیا ہے، حالانکہ لوح محفوظ بھی اس کا مصداق ہے

اور دوم اس لیے کہ حضرت ملا جیونؒ تو یہ تصریح فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں بعض احکام صراحۃً مذکور نہیں بلکہ بعض حدیث اور قیاس سے بھی ثابت ہیں، اور مؤلف مذکور ان کے ذمہ یہ لگاتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کو ہر ہر چیز کا جامع کہتے ہیں

اور سوم اس لیے کہ امور دین اور ما یحتاج الیہ کی قیود قرآن کریم سے مأخوذ ہیں

امور دین کی قید شرع لکم من الدین (الآیۃ) سے لی گئی ہے

خزائن العرفان کا حوالہ

ولا یدینون دین الحق اور الیوم اکلمت لکم دینکم بھی اسی مد کی کڑیاں ہیں

حدیث مسلم کا حوالہ

اور ما یحتاج الیہ کی قید لا تسئلوا عن اشیاء (الآیۃ) سے مأخوذ ہے

التفسیرات الاحمدیہ کا حوالہ

نزول قرآن سے نزول وحی کا زمانہ مراد ہے

تفسیر ابن کثیر اور التفسیرات الاحمدیۃ

وثامنًا مؤلف مذکور کا ہذیان کہ آیات بیّنات کی تخصیص و تقیید کسی آیت کریمہ سے نہیں ہوئی

حالانکہ یہ تخصیص و تقیید خود آیات سے ثابت ہے

اگر فریق مخالف پورے قرآن کریم کو تفصیل کل شیءٍ کہتا ہے تو آخری سورت سے قبل نازل شدہ کسی بھی سورت سے اس کا اثبات علمِ غیب اور حاضر و ناظر وغیرہ مسائل پر استدلال قطعًا باطل ہے

لا تعلمھم نحن نعلمھم (الآیۃ) کو قرآن کریم سے نکالنے کا شوشہ صرف مجنونانہ بڑ ہے

قرآن کریم کی آخری سورت سے علمِ غیب کی نفی ثابت ہے

وتاسعًا یہ کہنا کہ اہل حق نے خبر واحد سے تخصیص کی ہے، بالکل غلط ہے، اخبار آحاد کو تو صرف تائید میں پیش کیا جاتا ہے

مؤلف مذکور خبر متواتر اور مشہور کو مترادف سمجھتے ہیں، اور یہ ان کی جہالت ہے

خبر مشہور خبر واحد کی ایک قسم ہے۔ شرح نخبۃ الفکر

وعاشرًا خبر واحد کے ناسخ کہنے کا اہل حق پر الزام غلط ہے، اور توضیح و تلویح کا حوالہ بالکل غیر متعلق ہے

وحادی عشر عمومات سے استدلال درست ہے بشرطیکہ عام اپنے عموم میں قطعی ہو اور یہاں ایسا نہیں ہے

وثانی عشر لفظ کُلّ کی بحث ان شاء اللہ العزیز جب ہم کریں گے تو ضرور قارئین کرام اس سے محظوظ ہوں گے

چوتھی دلیل: و تفصیل الکتاب لا ریب فیہ، جو کچھ لوح محفوظ میں ہے وہ سب قرآن کریم میں ہے، اور جو کچھ قرآن کریم میں ہے وہ سب آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سینہ مبارک میں ہے

جلالین، جمل، روح البیان اور صاوی کا حوالہ

لفظ غیر مضاف ہو کر بھی نکرہ رہتا اور مفید عموم ہے

الجواب

تفصیل الکتاب، لفظ غیر اور قیاس اختراعی اقترانی کا جواب پہلے دیا جا چکا ہے

اس مقام پر لفظ الکتاب سے لوح محفوظ مراد لینا مرجوح تفسیر ہے جس کو صاحب جمل، روح البیان، صاوی اور خانصاحب نے اختیار کیا ہے

جمہور کے نزدیک یہاں الکتاب سے قرآن کریم مراد ہے

اگر لوح محفوظ بھی مراد ہو تب بھی اس کا قطعی طور پر علم آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے ثابت نہیں ہے

جلالین کی عبارت کا مطلب مؤلف مذکور نے غلط سمجھا ہے

پانچویں دلیل: ولا رطبٍ وّلا یابسٍ الّا فی کتاب مّبین

لوح محفوظ کے تمام علوم قرآن میں اور قرآن کے سب علوم آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سینۂ مبارک میں ہیں

تفسیر کبیر، روح البیان، خازن، مدارک، اور تنویر المقیاس کے حوالے کہ ہر چیز لوح محفوظ میں درج ہے

تفسیر خازن اور انوار التنزیل میں ہے کہ قرآن کریم تمام احوال پر مشتمل ہے

طبقات الکبرٰی شعرانی میں ہے کہ صفحات وجود کی تمام چیزیں قرآن کریم میں درج ہیں

تفسیر اتقان میں حضرت مجاہدؒ کا قول ہے کہ جہان کی تمام چیزیں قرآن کریم میں درج ہیں

تفسیر حسینی میں ہے کہ قرآن کریم سب امور دین و دنیا اور اجمال و تفصیل کا روشن بیان ہے

ہمارے اکابر نے مسئلہ علمِ غیب پر دلائل کے انبار لگا دیے ہیں مگر ہم صرف ان پانچ پر اکتفاء کرتے ہیں

الجواب

چار دلیلوں سے استدلال کا حال تو قارئین کرام بخوبی دیکھ چکے ہیں، اور پانچویں دلیل سے بھی ان کا مدعٰی ثابت نہیں ہوتا

اولًا اس لیے کہ گو لوح محفوظ میں تمام چیزیں درج ہیں لیکن قرآن کریم میں لوح محفوظ کی ہر ہر چیز درج نہیں، مثلاً علم سحر و سیمیا وغیرہ ناپاک علم اس میں درج نہیں اور نہ یہ اس کی شان کے لائق ہیں

وثانیًا لوح محفوظ اور تقدیر کا علم صرف اللہ تعالٰی ہی کو ہے، اس کو اور کوئی نہیں جانتا

ملاحظہ ہو ازالۃ الریب ص ۱۰۰ و ص ۱۴۵

امام نوویؒ کا حوالہ

مندرجات لوح محفوظ اور ضمائر کے علم کے لیے ملفوظات حصہ اول کا حوالہ

مگر اس سے استدلال صحیح نہیں ہے

اولًا اس لیے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ ازالۃ الریب ص ۵۱۸ تا ۵۲۳

وثانیًا عقائد میں صحیح حدیثیں بھی قابل قبول نہیں، جب تک کہ وہ قطعی الدلالۃ اور متواتر نہ ہوں۔ فتاوٰی رضویہ

وثالثًا قرآن کریم کی قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ نصوص سے ثابت ہے کہ آسمانوں اور زمین کا غیب اور دلوں کا بھید صرف اللہ تعالٰی ہی کو ہے

مثلاً للہ غیب السمٰوات والارض (الآیۃ) اور قل لا یعلم من فی السمٰوات والارض الغیب الّا اللہ (الآیۃ) اور اواللہ علیم بذات الصدور (الآیۃ)

یہی وجہ ہے کہ حضرات فقہاء احنافؒ نے آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے اثباتِ علمِ غیب کو صراحۃً کفر کہا ہے

المسامرہ و شرح فقہ الاکبر

مزید حوالہ ازالۃ الریب ص ۴۴۲ تا ۴۴۶ میں دیکھیں

جن کتب تفسیر کے حوالے مؤلف مذکور نے دیے ہیں وہ بالکل فضول ہیں کیونکہ اتنی بات تو خود قرآن کریم سے ثابت ہے

حضرت امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو کل معلومات کا علم نہ تھا

اور لفظ کُلّ شیءٍ کو وہ عام نہیں مانتے۔ تفسیر کبیر

علامہ خازنؒ کا حوالہ بھی مؤلف مذکور کو مفید نہیں کیونکہ وہ کل احوال سے صرف امور دین مراد لیتے ہیں۔ دیکھئے ازالۃ الریب ص ۴۷۴

امام شعرانیؒ نہ تو کسی نص کا نام ہے اور نہ خبر متواتر کا، ان کا قول خود قابلِ تأویل ہے

ورنہ معاذ اللہ تعالٰی لازم آئے گا کہ علمِ سحر اور سیمیا وغیرہ بھی قرآن کریم میں مذکور ہو

صاحب حسینی شیعہ مفسر ہے، اس کی تفسیر اہلِ حق کے لیے حجت نہیں ہے

بے جا دفاع

حضرات انبیاء کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام معصوم ہیں، مگر ان سے زَلَّت، سہو و نسیان اور ذھول ممکن ہے

سہو و نسیان علم کے منافی نہیں

عدم توجّہ بھی عدمِ علم کی دلیل نہیں

کسی وقت مستحضر نہ ہونا بھی عدمِ علم کی دلیل نہیں

بھول اور ذھول ہر شئے کے ہر وقت علم میں ہونے کے منافی نہیں ہے

الجواب

شق اوّل مسلّم ہے، باقی سب غیر مسموع ہیں

شق دوم: اولًا تو اس لیے کہ مؤلف مذکور کے اکابر کے (مطابق) آپؐ کے نسیان کے بارے نظریات متضاد ہیں

ان میں قائل بھی ہیں اور منکر بھی

بہار شریعت اور مقیاس النور کا حوالہ

وثانیًا اس لیے کہ ذھول اور نسیان کے وقت علمِ غیب نہیں رہتا

وثالثًا اس لیے کہ علمِ غیب اور ذھول و نسیان متضاد چیزیں ہیں

توجہ دلانے کے باوجود آپؐ کو یاد نہیں آیا

حضرت ذوالیدینؓ کی حدیث بخاری و مسلم سے

آپؐ نے حضرات صحابہ کرامؓ سے تصدیق کروائی تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ بخاری و مسلم

شق سوم، چہارم اور پنجم کا جواب بھی ہو گیا ہے

مراد آبادی صاحب کے آپؐ کے نسیان کے بارے دورنگی

الکلمۃ العلیاء اور خزائن العرفان کا حوالہ

حضرات انبیاء کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام سے نسیان واقع ہوا ہے

حضرت آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام

قرآن کریم و ترجمہ از خانصاحب

جناب مفتی احمد یار خان صاحب کا حوالہ۔ نور العرفان

حضرت موسٰی اور خضر علیہما الصلٰوۃ والسلام کا نسیان

قرآن کریم و ترجمہ از خانصاب

آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نسیان

قرآن کریم اور ترجمہ از خانصاحب اور تفسیر از مراد آبادی صاحب

نور العرفان کا حوالہ

مراد آبادی صاحب سے آیت کریمہ کا شانِ نزول۔ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام کا نسیان اللہ تعالٰی کی طرف سے ہوتا ہے۔ نور العرفان

صحاح ستہ کی پانچ کتابوں کے حوالے

سہو کے بارے حضرت عبد اللہؓ بن مسعود کی حدیث اور اس کے مأخذ

صرف نماز کے سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم چار یا پانچ مرتبہ بھولے۔ امام ابن دقیق العیدؒ اور حافظ ابن القیمؒ سے

جمہور اہل حق حضرات انبیاء کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام کے نسیان کے قائل ہیں۔ احکام الاحکام

نووی شرح مسلم

مسئلہ نسیان اور مولوی محمد عمر صاحب

جو شخص آپؐ کے نسیان کا قائل ہے وہ اس وقت تک کے لیے نبوت کا منکر ہے۔ مقیاس الحنفیت

ان کے مولانا رضوی صاحب کا بیان۔ حضورؐ کا علم نسیان سے پاک ہے۔ اس پر ادھوری آیت کریمہ سے استدلال

ایک شبہ کا ازالہ کہ احادیث صحیحہ سے آپؐ کے فعل میں نسیان ثابت ہے

تطبیق یہ ہے کہ نسیان کا تعلق علم سے ہے، اور سہو کا فعل سے

جامع الصفات کا حوالہ

الجواب: یہ تطبیق مردود ہے

اولًا اس لیے کہ لغۃً سہو و نسیان ایک ہے، ان میں فرق باطل ہے

مصباح اللغات، غیاث اللغات، اور المنجد کے حوالے

وثانیًا اس لیے کہ رضوی صاحب الّا ما شاء اللہ کی استثناء پی گئے ہیں

وثالثًا اس لیے کہ واذکر ربک اذا نسیت (الآیۃ) کو بھی ہڑپ کر گئے ہیں

ورابعًا اس لیے کہ انما انا بشر کی آیت اور حدیث کو بھی ہضم کر گئے ہیں

وخامسًا اس لیے کہ سہو و نسیان کا تعلق آپؐ کی ذاتِ مقدسہ سے تھا جو منبع العلم تھی

وسادسًا شراح حدیث سے حضرات انبیاء کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام کے نسیان کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے

وسابعًا سہو و نسیان کا تعلق بواسطہ ذات علم و فعل دونوں سے ہے

لطیفہ

آپؐ کو لیلۃ القدر کی تعیین بتلائی گئی پھر اٹھا لی گئی

بخاری و مسلم

کیا ہمیشہ ہمیشہ کا نسیان علمِ غیب کے منافی نہیں ہے؟

باب دوم

مؤلف مذکور کی سیاسی لن ترانی

اعلٰی حضرت اور ان کے متبعیین نے انگریز کے ایماء پر تکفیر نہیں کی

دیوبندی انگریز کے نمک خوار اور ٹکر خوار رہے ہیں

مکالمۃ الصدرین میں ہے کہ مولوی اشرف علی تھانوی انگریز سے چھ سو روپے ماہوار لیتے تھے

تذکرۃ الرشید میں ہے کہ انگریز رحمدل گورنمنٹ ہے، نیز اس میں ہے کہ میں سرکار کا فرمانبردار ہوں

مکالمۃ الصدرین میں ہے کہ تبلیغی جماعت کو ابتداءً حاجی رشید احمد صاحب کے ذریعے سے حکومت کی طرف سے امداد ملتی تھی

تذکرۃ الرشید میں ہے کہ پہلا جہاد یار محمد خان سے کیا جو مسلمان تھا

انگریس سید احمد صاحبؒ کی خدمت میں کھانا لے کر آیا

ان حوالوں سے ثابت ہوا کہ یہ لوگ انگریز کے وفادار اور مسلمانوں کے خلاف جہاد کرتے تھے

حیاتِ طیبہ میں ہے کہ شاہ اسماعیلؒ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوٰی نہیں دیا

ایسا ہی تواریخ عجیبہ وغیرہ میں ہے

الغرض یہ لوگ انگریز کے اشاروں پر چلتے تھے اور اس کے خلاف (جہاد) کے جواز کے قائل نہ تھے

الجواب: یہ سب بے حقیقت باتیں ہیں

اولًا مکالمۃ الصدرین کوئی مستند کتاب ہی نہیں ہے

اس پر کشف حقیقت سے متعدد حوالے

وثانیًا مکالمۃ الصدرین کی اصل عبارت یوں ہے جو مؤلف مذکور کے مدعٰی کے خلاف ہے

وثالثًا خود حضرت تھانویؒ نے الافاضات الیومیہ میں اس کا حکیمانہ جواب دیا ہے

تذکرۃ الرشید کی عبارت حضرت گنگوہیؒ کی نہیں، خود مصنف کی اپنی ہے جو انگریز کے حامی تھے

خود تذکرۃ الرشید میں ہے کہ حضرت گنگوہیؒ نے انگریز کے خلاف جہاد کیا ہے

اس کے لیے متعدد حوالے

جس عمل کو بجائے جہاد کے فساد کہا، اس کی اصل حقیقت

ایک شبہ اور اس کا ازالہ کہ مولانا گنگوہیؒ نے ہندوستان کو دارالاسلام کہا۔ فتاوٰی رشیدیہ

اس کا جواب کہ حضرت مولانا نے دارالاسلام ہرگز نہیں کہا، وہ ہندوستان کو ہمیشہ دارالحرب سمجھتے تھے

تذکرۂ علماء ہند کا حوالہ

سرکار کا فرمانبردار ہونے کا جواب

یہ عبارت مصنف تذکرۃ الرشید کی اپنی ہے

اور اس کا قرینہ

لفظ سرکار آقائے حقیقی اور ولی نعمت پر بھی اطلاق ہوتا ہے

فرہنگ آصفیہ

اور تذکرۃ الرشید میں ہے کہ سچے سرکاری خیر خواہوں سے اللہ تعالٰی کا وعدہ ہے۔ متعدد آیات کا حوالہ

تذکرۃ الرشید سے اس کی دلیل و قرینہ

جہاد شاملی کا واقعہ

سرکار پر جان نثاری کے جملہ سے شبہ نہ ہو

مجازًا لفظ فداء، رضا اور محبت و تعظیم پر بھی بولا جاتا ہے

بخاری و مسلم کی حدیث نوویؒ اور حاشیۂ بخاری سے اس کی تشریح

تبلیغی جماعت کا انگریز سے امداد لینا

خود حضرت مولانا حفظ الرحمٰن کے قلم سے اس کا رد۔ کشف حقیقت

مؤلف مذکور نے پوری عبارت ہی نقل نہیں کی

ایک سرکاری ہندو افسر کا بیان

یار محمد خان سے جہاد کا جواب کہ جہاد تو کھڑک سنگھ پسر رنجیت سنگھ سے تھا، یار محمد خان اس کا آلۂ کار تھا

سیرت احمد شہیدؒ سے اس پر متعدد حوالے

سلطان محمد خان کی مخالفت

یہ بھی سکھوں کا ایجنٹ تھا اور اس کی فوج کا افسر انگریز تھا

مجاہد، سکھوں اور انگریزوں دونوں کے سخت مخالف تھے

انگریز مؤرخ کیپٹن کننگھم کا حوالہ

سیرۃ سید احمد شہیدؒ۔ ابو الحسن ندوی کا حوالہ

نواب امیر خان والیٔ ٹونک انگریز کے مخالف تھے پھر اس سے صلح کر لی

حضرت سید احمد شہیدؒ فورًا اس کے لشکر سے جدا ہو گئے

سیرت سید احمد شہیدؒ کا حوالہ

انگریز کے کھانا پیش کرنے کا جواب کہ یہ کمپنی کا نہ تھا صرف ایک تاجر کا تھا

اور سید صاحبؒ کو عالم اور مصلح سمجھ کر دعوت پیش کی

خود آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خیبر میں یہود کی دعوت قبول کی تھی۔ بخاری شریف

اور بخاری شریف میں قبول ہدیۃ المشرکین کا مستقل باب ہے

اس جماعت کا اصلاحی کارنامہ

چالیس ہزار سے زیادہ ہندو حضرت سید صاحبؒ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔ سیرت سید احمد شہیدؒ

لاکھوں انسانوں نے اسلام کی روشنی اور سنت کا راستہ پایا۔ سیرت سید احمد شہیدؒ

مولانا کرامت علی صاحب جونپوریؒ کی کوشش سے بنگال میں لاکھوں آدمی مشرف باسلام ہوئے۔ سیرت سید احمد شہیدؒ

قنوج اور اس کے اطراف میں کئی ہزار ہندو مسلمان ہوئے۔ سیرت سید احمد شہیدؒ

حضرت شاہ شہیدؒ کا انگریزوں کو وعظ کرنا

ساتویں اور آٹھویں الزام کا جواب

کہ ابتداءً انگریز نے مسلمانوں اور اہل ہند کے خلاف لڑائی اور قتل و غارت نہیں کیا تھا، اسبابِ جہاد بھی نہ تھے

اور حضرت شاہ شہیدؒ ۱۸۵۷ء سے پہلے ہی شہید ہو گئے تھے

ہر کام کے لیے ایک وقت ہوتا ہے۔ طرق الہدی والارشاد کا حوالہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سے معاہدہ کیا تھا

نویں اور دسویں الزام کا جواب

کہ پہلے جہاد کے اسباب نہ تھے، اس لیے نہیں کیا۔ طرق الہدی والارشاد کا حوالہ

مؤلف مذکور کا کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہو سکا

بظاہر انگریز کی تائید میں علماء حق اور مؤرخین سے جو الفاظ منقول ہیں وہ سب توریہ ہے

اعلٰی حضرت اور ان کے اتباع نے نہ تو انگریز کے خلاف فتوٰی دیا نہ اس سے جہاد کیا اور نہ قید ہوئے

صرف نام کے مغالطہ سے مولانا فضل حق خیرآبادیؒ قابو آ گئے تھے اور جزیرۂ انڈمان میں وفات پائی

حاشیۂ جنگ آزادی کا حوالہ

توریہ کا معنٰی

قرآن کریم سے اس کی تین مثالیں

حدیث بخاری و مسلم سے اس کی مثال

آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھی توریہ سے کام لیتے تھے۔ بخاری

امام بخاریؒ نے اس پر مستقل باب قائم کیا ہے

امام ابراہیم نخعیؒ نے بھی توریہ سے کام لیا

قاضیخاں کا حوالہ

اغاثۃ اللہفان کے حوالے

جھوٹ کی مذمت قرآن و حدیث سے بالکل عیاں ہے

مگر بے قصور کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے

نووی شرح مسلم، و مسلّم الثبوت کا حوالہ

تذکرۃ الرشید انگریز کے اس دور کی تصنیف ہے جس میں انگریز کے خلاف بات کرتے بھی لوگ گھبراتے تھے

تذکرۃ الرشید کا حوالہ

اس دور میں بعض حضرات کے توریہ کے الفاظ سے یہ ثابت کرنا کہ علماء دیوبند انگریز کے خیرخواہ تھے، تاریخ کو مسخ کرنا ہے

باب سوم

البیان الحق لحافظ عبد الحق

ہندوستان کی آزادی کی تاریخ کا آغاز حضرت مجدد الف ثانیؒ اور خاندان ولی اللّٰہی کے بعد معرکۂ بالاکوٹ سے ہوتا ہے

اور اس کے بعد اکابر علماء دیوبند سے

جناب عشرت رحمانیؒ سے

جناب چودھری خلیق الزماں صاحبؒ

جناب اعجاز الحق صاحب قدوسیؒ

جناب شیخ محمد اکرام صاحبؒ

جناب ٹیکارام سخن

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال صاحبؒ وغیرہ کے تاثرات

متعدد حوالے

جناب اعجاز الحق صاحب قدوسیؒ کے مزید حوالے

جناب شیخ محمد اکرام صاحبؒ

جناب پروفیسر خلیق احمد صاحب نظامیؒ

حضرت مولانا مشتاق احمد صاحب انبھیٹویؒ

بریلوی حضرات کی کوئی سیاسی تاریخ نہیں ہے

صرف بدعات و تکفیر پر زور ہے

مولانا ظفر علی خان صاحبؒ

چوہدری خلیق الزمان خان صاحب

مسلم لیگ والوں کی اور قائد اعظم مرحوم کی تکفیر

مولانا ابوالبرکات سید احمد صاحب کا فتوٰی

مسلم لیگ کی زرّیں بخیہ دری

احکام نورِ شرعیہ بر مسلم لیگ

تجانب اہل السنۃ عن اہل الفتنۃ

دیگر علماء کے علاوہ قائد اعظم مرحوم کی تکفیر

قہر القادر علٰی الکفار اللیاڈر

الدلائل القاہرۃ علٰی الکفرۃ النیاشرۃ

جناب عبد المجید سالک کا حوالہ

جناب شیخ محمد اکرام صاحبؒ کا حوالہ

مولانا حکیم عبد الحی لکھنویؒ کا حوالہ

مولانا عبد الرزاق صاحب ملیح آبادیؒ کا حوالہ

جناب رئیس احمد صاحب ندوی

مولانا شبلی نعمانیؒ

مولانا محمد علی صاحب جوہر

مولانا معین الدین صاحب اجمیریؒ

مولانا محی الدین صاحب اجمیریؒ

مولوی محمد عمر صاحب کا حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ پر غصہ

حضرت شاہ صاحبؒ کا ہندوستان میں کافی اثر تھا

مراد آبادی صاحب

مولوی فضل رسول بدایونی کی اہل حق سے مخالفت

ان کا علمی مقام

یہ صاحب انگریز کے ملازم اور ٹکرخور تھے

از جناب یعقوب حسینی بدایونی

جناب پروفیسر ایوب قادری صاحبؒ کا حوالہ

جناب اعجاز الحق صاحب قدوسی

سید احمد شہیدؒ کافر تھے۔ عرفان شریعت

سید احمدؒ، رشید احمدؒ، خلیل احمدؒ، اور اشرف علیؒ کافر ہیں۔ ملفوظات حصہ اول

حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ کی عدم تکفیر

تمہید ایمان بآیات القرآن

مولانا فضل حق رامپوریؒ کے شبہ میں مولانا فضل حق خیرآبادیؒ کی گرفتاری

مولانا خیرآبادیؒ کا اپنا خط

مولانا مذکور کی حضرت شاہ شہیدؒ سے عقیدت

امیر الرویات کا حوالہ

الحیات کا حوالہ

مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علیؒ کے بارے الدلائل القاہرۃ اور دوامغ الحمیر کے حوالے

علماء دیوبند کی تابناک تاریخ ہے

تحریک بالاکوٹ

سر ولیم ولسن ہنٹر کا حوالہ

لطیفہ

رنجیت سنگھ کی حکومت کی مسلمانوں پر زیادتیاں

مسلمان عورتیں سکھوں کے نکاح میں تھیں

ایسے ہی واقعات حضرت سید احمد صاحبؒ اور مجاہدین کے سکھوں کے خلاف جہاد کا سبب بنے۔ موج کوثر

مولانا ابوالحسن علی ندوی کا حوالہ

مقام عبرت، حدائق بخشش کا حوالہ

حضرت سید احمد صاحبؒ کا اصل مقصد انگریز کے خلاف جہاد تھا

تاریخ مشائخ چشت کا حوالہ

جماعت مجاہدین از مولانا غلام رسول مہر صاحب کا حوالہ

نقش حیات کا حوالہ

پروفیسر خلیق احمد صاحبؒ کا حوالہ

نقش حیات کا اور حوالہ

جناب اعجاز الحق صاحب قدوسی کا حوالہ

سکھوں کے خلاف جہاد کے اسباب تین تھے

حضرت سید صاحبؒ نواب امیر علی خان کے ساتھ مل کر تقریبًا چھ سال انگریز کے خلاف جہاد کرتے رہے

علماء ہند کا شاندار ماضی

ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کا حوالہ

حضرت مولانا سندھیؒ کا حوالہ

حضرت سید صاحبؒ کا مقصد چونکہ انگریز کے خلاف جہاد تھا اس لیے مجاہدین کے خلاف انگریز نے مقدمات قائم کیے۔ پانچ مقدموں کا حوالہ

تحریک بنگال

مسلمانوں کا روشن مستقبل

ڈاکٹر ہنٹر کا حوالہ

مولانا محمد میاں صاحبؒ کا حوالہ

ڈاکٹر ہنٹر کے مزید حوالے

مجاہد بنگال جناب ٹیٹو میاںؒ اور مسکین شاہؒ

بحوالۂ علماء ہند کا شاندار ماضی

۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی

سوانحِ قاسمی سے جہادِ شاملی میں شرکاء کے نام

مولانا گنگوہیؒ سہارنپور جیل میں قید کر دیے گئے

ایسٹ انڈیا کمپنی کے باغی علماء

تاریخ مشائخ چشت

جناب پروفیسر محمد ایوب صاحب قادریؒ

دلچسپ حقیقت

جنگِ آزادی کا والہانہ جذبہ۔ از فاروق قریشی

قیامِ دارالعلوم دیوبند

تقریبًا سترہ ہزار علماء کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا

مجاہدین پر مظالم

حضرت مولانا نانوتویؒ کی پیش گوئی جو پوری ہو کر رہی

جناب مولانا طفیل احمد منگلوریؒ کا حوالہ

جناب شیخ محمد اکرام صاحبؒ

جناب علامہ سید رشید رضا مصریؒ

جناب مولانا ابوالکلام آزادؒ

مولانا عبید اللہ سندھیؒ

مولانا غلام رسول مہرؒ

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال صاحبؒ

علماء لدھیانہ اور تحریک آزادی

بحوالۂ جنگِ آزادی

بحوالۂ رئیس الاحرار

بحوالۂ ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علماء

مرزا غلام احمد قادیانی پر سب سے پہلے کفر کا فتوٰی علماء لدھیانہ نے لگایا

فتاوٰی قادریہ

کانگریس میں شرکت کے جواز کے فتوٰی میں فریق مخالف کے اعلٰی حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب بھی شریک تھے

مگر پھر بگڑ گئے

تحریکِ ریشمی رومال

ٹیکارام سخن

مفتی انتظام اللہ شہابیؒ

تاریخ مشائخ چشت

ریشمی رومال خطوط سازش کیس

انڈیا آفس لندن کے خفیہ ریکارڈ کی ایک جھلک

اہم شخصیتوں کا ذکر

حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوریؒ

حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب رائپوریؒ

حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ

حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہوریؒ

حضرت مولانا غلام محمد دین پوریؒ

حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ

دارالعلوم دیوبند جہاد کے حامیوں کا گڑھ ہے

حضرت مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندیؒ

رئیس الاحرار مولانا محمد علی صاحب جوہرؒ

حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ

حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانیؒ

حضرت مولانا تاج محمود صاحب امروٹیؒ

حضرت مولانا محمد صادق صاحب سندھیؒ

حضرت مولانا عزیر گل صاحب دام مجدھم

جمعیۃ علماء ہند کا قیام ۱۹۱۹ء میں ہوا

اس کے اغراض و مقاصد

بحوالۂ جمعیۃ علماء ہند اَز مس پروین روزینہ

انگریز کے خلاف ۱۹۲۰ء میں ترکِ موالات کا اجلاس زیرِ صدارت حضرت شیخ الہندؒ دہلی میں ہوا

ترکِ موالات کے فتوٰی پر ۴۷۴ جید علماء کرام نے دستخط کیے

تحریکِ خلافت و ترکِ موالات

مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی تحریک پر پانچ سو جید علماء کرام نے ترکی کی حمایت میں فتوٰی جاری کیا

ترکِ موالات میں ہندوؤں نے بھی ساتھ دیا

ترکِ موالات کے بنیادی اصول

اس تحریک میں علماء اور کارکنوں کی گرفتاری

مقدمۂ کراچی

حضرت مدنیؒ اور مولانا جوہرؒ دو دو سال قید ہوئے

اس موقع پر ان دونوں بزرگوں کے اشعار

مقدمۂ کلکتہ

حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ کو ایک سال کی قید ہوئی

ان کی اہلیہ کا اظہارِ حیرت

حضرت مولانا ابوالکلامؒ کے جذبات و اشعار

مقدمۂ امرتسر

حضرت امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو تین سال قید ہوئی

کاروانِ احرار

حضرت شاہ صاحبؒ کا جذبہ سواطع اللہام

مسئلہ خلافت خالص مذہبی مسئلہ تھا۔ علامہ اقبالؒ

ترکِ موالات کرنے والے علماء کے مخالفت میں احمد رضا خان صاحب پیش پیش تھے

لطیفہ: علامہ اقبالؒ کا سلطان عبد العزیز بن سعودؒ کے بارے تاثر

خان صاحب نے اس دور میں مسلمانوں پر حج ساقط ہونے کا فتوٰی صادر کیا۔ تنویر الحجۃ

تلوّن مزاجی یا ابن الوقتی

خواجہ حمید الدین صاحب ملک فیصلؒ کو اسلامی رہنما کہتے ہیں

ضیائے حرم کا حوالہ

بریلوی حضرات سے چند سوالات

تحریک ختم نبوت

مرزا غلام احمد قادیانی کے ترتیب وار دعاوٰی

۱۹۵۳ء کی تحریک جو حضرت امیر شریعتؒ کی سعی سے ہوئی

۱۹۷۴ء کی تحریک مولانا بنوریؒ کی قیادت میں ہوئی

پھر ۱۹۸۳ء میں مولانا خان محمد صاحب کی قیادت میں کافی حد تک کامیابی ہوئی

صدر پاکستان نے قادیانیوں کے لیے اسلامی اصطلاحات استعمال کرنے کی پابندی کا آرڈیننس جاری کیا

تحریکِ دفاعِ اسلام

محاذِ اول: ردِّ عیسائیت

اس میں بھی حضرت نانوتویؒ، حضرت کیرانویؒ، اور مولانا ابوالمنصور دہلویؒ وغیرہ کے کارنامے ظاہر ہیں

محاذِ ثانی: ردِّ آریہ سماج

حضرت نانوتویؒ اور ان کے شاگردوں کی خدمات

محاذِ ثالث: تبلیغِ اسلام

اس میں تبلیغی جماعت کا کام بین الاقوامی حیثیت رکھتا ہے

حضرت تھانویؒ اور حضرت مولانا محمد الیاسؒ کی خدمات قابلِ ذکر ہیں

تاریخ مشائخ چشت

تبلیغی جماعت کے بارے جناب مولانا صاحبزادہ نظام الدین مرولوی بریلوی کا بیان

افادہ

جناب مرولوی صاحب بریلوی حضرات کے روحانی رہنما ہیں

ھوالمعظم کے چند حوالے

اذان سے قبل یا بعد صلٰوۃ و سلام کہنا اذانِ بلالیؓ کے خلاف ہے

علماء دیوبند کی دینی خدمات کا اقرار

دیوبندیوں اور بریلویوں کا نمایاں فرق۔ از مفتی احمد یار خان صاحب

تحریکِ کشمیر

حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحبؒ، حضرت امیر شریعتؒ، اور علامہ اقبالؒ کا کردار

اس تحریک میں چالیس ہزار مسلمان گرفتار ہوئے اور سینکڑوں شہید ہوئے

بندہ چندہ بند کی تحریک۔ از فاروق قریشی

تحریکِ قیامِ پاکستان

ابتداءً علماء متردّد تھے، قرآن و سنت اور خلافتِ راشدہ کے وعدہ سے مطمئن ہو گئے

حضرت تھانویؒ اور دیگر علماء دیوبند کے کارنامے۔ اور اس پر متعدد تاریخی حوالے

قائد اعظمؒ نے وصیت کی تھی کہ میرا جنازہ علامہ عثمانیؒ پڑھائیں

بریلوی حضرات کا مسلم لیگ اور حضرت تھانویؒ اور مولانا مظہر الدین شیرکوٹی پر فتوٰی

بریلوی حضرات کی برافروختگی کے دو سبب تھے

اول: جمعیۃ علماء اسلام کا قیام

دوم: مسلم لیگ کی واضح کامیابی

مفتی ابرار حسین صاحب کا فتوٰی

تنبیہ

بقول بعض بریلوی علماء کے مدنیؒ اور عثمانیؒ سیاست پر چھائے ہوئے تھے

کثیفہ

خان صاحب نے ہندوستان کو دارالاسلام قرار دیا اور جہاد و قتال کو ساقط کیا۔ دوام العیش

بریلویوں سے ایک سوال

واقعہ جلیانوالہ باغ ۱۹۱۹ء میں ہوا

ڈاکٹر سیف الدین کچلو کی فرضی کرسیٔ صدارت میں

اس میں پندرہ سو انسان ہلاک ہوئے

جنرل اڈوائر کا فخر

بحوالۂ علماء حق کے مجاہدانہ کارنامے

قاتلِ انسانیت کو بریلویوں کا سپاسنامہ

امیر شریعتؒ کا پرسوز بیان

بحوالۂ امیر شریعت

مسخ حقیقت۔ بحوالۂ طرق الہدی والارشاد

باب چہارم

مؤلف مذکور کی مزید علمی شگوفوں کا جائزہ

امر ثانی کا جواب

سرفراز صاحب بریلویوں کے اصاغر و اکابر، معروف و غیر معروف کا فرق کیے بغیر ان کے کلام میں تضاد ثابت کرتے ہیں

حالانکہ غلام خانیوں کا حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عقیدہ اور ہے اور اکابرین علماء دیوبند کا اور ہے

توسل بالانبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام اور سماع موتٰی کے بارے میں بھی ان کا اختلاف ہے

ہمارے اصاغر کی رائے حجت نہیں اور اکابر کی رائے میں کوئی تضاد نہیں ہے

الجواب

ازالۃ الریب میں احمد رضا خان صاحب، مولوی محمد عمر صاحب، مفتی احمد یار خان صاحب، اور پیر صاحب گولڑی وغیرہ ان کے اکابر کے حوالے ہیں، قطع نظر ان کے خود ان کے اعلٰی حضرت کے کلام میں تعارض ہے

انبآء المصطفٰی اور حدائق بخشش کے حوالے

خالص الاعتقاد کا حوالہ

حیات النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور صلٰوۃ وسلام عند القبر کے سماع اور مسئلہ توسل میں اکابرین علماء دیوبند کا کوئی اختلاف نہیں۔ شاہ صاحب گجراتی اکابر سے کٹ چکے ہیں

عام سماعِ اموات کے مسئلہ میں اختلاف ہے اور یہ قدیمًا چلا آ راہ ہے

حضرۃ مولانا غلام اللہ خان صاحبؒ کا حیات النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و سماع عند القبر کے مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں

ان کا اپنا حوالہ

شاہ صاحب گجراتی کے خلاف دارالعلوم دیوبند کا فتوٰی

جہل مرکب، مؤلف مذکور سرفراز کے مسلک کو غلط کہتے ہیں، حالانکہ اہل السنت کا مسلک ہی یہی ہے

حضرات انبیاء کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام کا عند القبور سماع اتفاقی مسئلہ ہے۔ فتاوٰی رشیدیہ و امداد الفتاوٰی

مؤلف مذکور کے تدریجی علمِ غیب کا دعوٰی غلط ہے

تدریجی علمِ غیب کا نظریہ خود ان کے امام اور مجدد کے اقوال و عبارات سے باطل ہے

انباء المصطفٰی اور خالص الاعتقاد کے حوالے

مؤلف مذکور کا دعوٰی کہ آیات و احادیث اور ہماری عبارات میں الفاظ عموم سے استغراق حقیقی مراد نہیں

الجواب: یہ عبارت کا چکر اور خواہ مخواہ طوالت ہے

مؤلف مذکور بہ نسبت مخلوق کے آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علم کو کلی کہتے ہیں

مگر ان کے مولانا منظور احمد صاحب اللہ تعالٰی کے لیے کلی غیب ثابت کرنے والے کو بے دین قرار دیتے ہیں

مخلوق کی بہ نسبت علم کلی کہنا بھی نصوص کے خلاف ہے

حضرات فقہاء کرامؒ کا فتوٰی

بالکل لا یعنی دعوٰی، کہ ہمارا دعوٰی علمِ غیب تدریجی کا ہے

الجواب

ان کا یہ دعوٰی نصوص قطعیہ کے خلاف ہے جن میں سے ایک سورۃ البرأۃ کی آیت ہے

ناکام گلو خلاصی، کہ ہمارا دعوٰی عطائی اور غیر استقلالی کا ہے

بعض علوم غیبیہ کا اقرار تو تھانویؒ اور سرفراز کو بھی ہے

عبارات اکابر حصہ اول کا حوالہ

الجواب

علمِ غیب کو کلی عطائی پر حمل کرنا بھی قرآن کریم کے خلاف ہے

وما علمنٰہ الشعر اور ورسلًا لم نقصصہم علیک کا ارشاد اس کی صراحۃً نفی کرتا ہے

جس طرح امور مثبۃ کے علم کا انکار کفر ہے اسی طرح امور غیر مثبۃ کا علم ثابت کرنا بھی کفر ہے

اور بعض علوم شانِ نبوت کے لائق ہی نہیں ہیں

مؤلف مذکور حضرت تھانویؒ کی اور عباراتِ اکابر کی عبارات کو نہیں سمجھے

تفصیلی عبارت

مخلوق کو عالم الغیب کہنا مکروہ ہے

الامن والعلٰی کا حوالہ

مؤلف مذکور انباء الغیب اور علمِ غیب کو گڈمڈ کر کے مغالطہ دیتے ہیں

اخبار الغیب معجزات کی قسم ہے

مقاصد اور شرح المقاصد کا حوالہ

یہ عقیدہ رافضیوں کا ہے کہ امام کو تمام غیوب کا علم ہونا چاہیے مگر یہ خرافات ہے۔ شرح المقاصد

حضرات اولیاء کرامؒ کو جو علم حاصل ہوتا ہے وہ ظنی اور جزئی ہوتا ہے

تفسیر مظہری وغیرہ کا حوالہ

لہٰذا ہمارے کلام میں کوئی تضاد نہیں

منطق دانی پر ناز

الجواب: مؤلف مذکور کو قطعی اور ظنی، اور کلی اور جزئی کا فرق بھی نہیں معلوم۔ اور وہ لازم غیر منفک کے معنٰی سے بے خبر ہیں